خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویولائف سٹائل

”ہمت نہ ہاری جائے تو معذوری انسان کو بہت آگے لے کر جاتی ہے”

شاہ زیب آفریدی

”معذوری انسان کو بہت آگے لے کر جاتی ہے لیکن اگر ہمت نہ ہاری جائے تو” ایسا ماننا ہے ملاکنڈ درگئی سے تعلق رکھنے والے پیدائشی طور پر دونوں پاؤں سے معذور محمد امر خان کا جن کو رواں سال پاکستان کرکٹ بورڈ کی طرف سے پی ایس ایل ہمارے ہیروز کے ٹائٹل سے نوازا گیا ہے۔

محمد امر خان کا کہنا ہے کہ انہوں جب سے ہوش سنبھالا ہے تب سے معاشرے میں انہیں دوسرے لوگوں پر انحصار کرنے والا انسان  سمجھا جاتا تھا لیکن والدین نے انہیں ہمیشہ ایک عام انسان کی طرح سمجھا اور کبھی یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ ان میں کوئی کمی ہے۔

”میرے والدین نے ایک عام بچے کی طرح میری پرورش کی ہے حالانکہ اس دوران ان کو کافی دقت بھی پیش آئی مگر پھر بھی میری والدہ نے مجھے سکول میں داخل کرایا اور وہ سارے حقوق دیئے جن کا میں مستحق تھا، میں نے ابتدائی تعلیم حیات آباد کے ایک سکول سے حاصل کی، پھر ایڈورڈز کالج پشاور سے پری میڈیکل میں ایف ایس سی کر لی جس کے بعد یونیورسٹی آف پشاور سے بی ایس اونرز بایئو ٹیکنالوجی کی ڈگری مکمل کی، ان سب ڈگریوں کے بعد آئی ایم سٹڈیز انسٹی ٹیوٹ سے ایچ آر کا امتحان پاس کر لیا۔” ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں امر نے بتایا۔

انہوں نے مزید کہا کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں نے ایچ آر ڈپارٹمنٹ کا رخ کر لیا کیونکہ میں نے جب بی ایس اونرز بائیو ٹیکنالوجی کی ڈگری حاصل کی تو اس میں زیادہ تر لیب ورک ہوتا تھا، ریسرچ ہوتی تھی۔

مزید بتایا، ”اکثر مجھے سکول اور یونیورسٹی میں سیڑھیوں پر چڑھنے کا مسئلہ ہوتا تھا کیونکہ وہیل چیئر پر بیٹھ کر میں سیڑھیاں چڑھنے سے قاصر تھا تو پھر مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ منیجمنٹ کی طرف رخ کیا جائے اور مجھے دلچسپی بھی اس میں زیادہ تھی لیکن دوران ایم بی اے تعلیم کے ہی میں نے رحمان میڈیکل انسٹی ٹیوٹ میں بطور ہیومن ریسورس آفیسر نوکری شروع کی اور سات سال وہاں کام کرنے کے بعد اب میں خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں اپنے فرائض انجام دے رہا ہوں لیکن اگر دیکھا جائے تو اس مقام تک پہنچنے میں سب سے زیادہ کردار میرے گھر والوں اور  دوستوں کا ہے، میرے جتنے بھی ممبرز تھے ان سب نے میری بھت دلجوئی کی مجھے چھوٹی چھوٹی چیزوں پر داد دیتے تھے ہر ضرورت پوری کرنے کی کوشش کرتے تھے اور آج میں جو کچھ ہوں ان سب کی وجہ سے ہوں، اس کے علاوہ مجھے جو ہمارے ہیروز کا ٹائٹل ملا ہے یہ مجھے میری سماجی سرگرمیوں کی وجہ سے ملا ہے, میں نے ایک قومی اسمبلی کی یوتھ موک پارلیمنٹ تنظیم میں شرکت کی اور مختلف لوگوں کے ساتھ مل کر افطار پارٹیز آگاہی مہم  کا اہتمام کرنے لگے جس کی بنیاد پر مجھے اس اعزاز سے نوازا گیا، نہ صرف یہ بلکہ اس دوران مجھے اور بھی بہت سے انعامات دیئے گئے مگر مجھے لگا کہ اب معذور لوگوں کے لئے بھی کام کرنا چاہیے جس کے لیےمیں نے سپیشل لائف فاؤنڈیشن ادارے کے ساتھ مل کر مختلف یونیورسٹیوں میں معذور افراد کے حوالے سے کام کیا اور آگاہی مہم کی تقاریب منعقد کرائیں۔”

انہوں نے مزید کہا کہ اگر انسان اپنے اندر ڈر ختم کر لے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے نہیں ہرا سکتی اور انسان  کی معزوری کا اندازہ اس کی سوچ سے لگایا جا سکتا ہے اس لئے میں ہمیشہ یہی سوچتا ہوں کہ میڑی زندگی میں کوئی ایسا کام نہیں کہ جو میں نہ کر سکوں اور اسی سوچ سے ہی انسان اپنی زندگی میں آگے جاتا ہے اور جو معذور یا خاص لوگ ہوتے ہیں ان میں صلاحیت کی کوئی کمی نہیں ہوتی لیکن جو سب سے بڑی مشکل ہے وہ یہ ہے کہ یہ لوگ با آسانی کہیں جا نہیں سکتے سڑک پار نہیں کر سکتے اور انہی رکاوٹوں کے باعث یہ لوگ گھروں تک محصور رہ جاتے ہیں، اسی طرح تعلیمی اداروں میں یا پھر جو باقی مقامی جگہیں ہیں تو ادھر اس قسم کے مسائل زیادہ ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button