مشال کور کا ترکی جانے کا خواب ادھورا کیوں رہ گیا؟
عبدالقیوم آفریدی
خیبر پختونخوا حکومت نے صوبے میں اقلیتوں کو قومی دھارے میں لانے کیلئے قانون سازی اور پالیسیاں مرتب کرنے کیلئے گزشتہ سال کی نسبت رواں مالی سال کے بجٹ میں پانچ گنا اضافہ کرتے ہوئے ایک ارب 45 کروڑ روپے مختص کئے ہیں جس میں سے 30 کروڑ روپے ضم اضلاع میں خرچ کئے جائیں گے، بجٹ کا بیشتر حصہ ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہو گا جس میں کرک میں سمادھی اور مندر کی تعمیر و بحالی، چترال میں کیلاشی قبیلے کے قبرستان کا تحفظ، روزگار کے مواقع، اقلیتی قبرستانوں اور شمشان گھاٹ کیلئے اراضی کی فراہمی، عبادت گاہوں کی تزئین و آرائش کے منصوبے شامل ہیں۔
اقلیتوں کو قومی دھارے میں لانے کیلئے 450 ملین روپے کا الگ فنڈ رکھا گیا ہے، اس کے علاوہ پیشہ ورانہ تعلیم، آگہی سیمینار، کانفرنسز اور ویلفیئر سے متعلق اقدامات بھی بجٹ کا حصہ ہیں۔ خیبر پختونخوا حکومت کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران صوبے میں اقلیتوں کیلئے 23 کروڑ سے زائد کا بجٹ مختص تھا، گزشتہ بجٹ میں 10 کروڑ روپے مختلف ترقیاتی کاموں پر خرچ کئے گئے جن میں سکھ کمیونٹی کیلئے سکولوں کی تعمیر، عبادتگاہوں کی تعمیر و مرمت، رہائشی کالونیاں جبکہ صوبے بھر میں شمشان گھاٹ کیلئے زمین کی خریداری شامل ہے۔
اقلیتی فنڈز سے برادری کے لوگ کس حد تک مطمئن ہیں؟
پشاور سے تعلق رکھنے والے خیبر پختونخوا اقلیتی برادری کے حقوق کیلئے سرگرم ہارون سرب دیال کو بعض کاموں کے حوالے سے اعتراض ہے، وہ کہتے ہیں کہ صوبائی حکومت ہر سال بجٹ میں اقلیتی برادری کیلئے رقم مختص کرتی ہے تاہم فنڈ کی غیرمنصفانہ تقسیم کی وجہ سے اقلیتی برادری میں بے چینی پائی جاتی ہے، شمشان گھاٹ اور مقبروں کی اراضی کیلئے فنڈز تو مختص کئے جاتے ہیں لیکن دس سال ہو گئے کہ ابھی تک نہ زمین خریدی جا سکی اور نہ کوئی نیا شمشان گھاٹ بن سکا، اس لئے ہندو برادری کے افراد، اپنے پیاروں کی میتوں کو، اپنے مذہبی عقائد کے مطابق جلانے کے بجائے انہیں دفنانے پر مجبور ہیں۔
اس حوالے سے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر برائے اقلیتی امور اور کیلاش مذہب کے پہلے رکن صوبائی اسمبلی وزیر زادہ سے پوچھا گیا کہ اب بھی اقلیتوں کیلئے میرج ایکٹ، شمشان گھاٹ کی تعمیر اور قبرستانوں کیلئے اراضی کے حصول ممکن نہیں بنایا جا سکا تو انہوں نے بتایا کہ ہندو میرج ایکٹ 2017 کے رولز بنائے گئے ہیں جس کی آخری ایک میٹنگ باقی ہے جس کے بعد یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ مسیحیوں اور کیلاشی قبیلے کیلئے قبرستان، ہندوؤں اور سکھ کمیونٹی کیلئے شمشان گھاٹ کیلئے مردان، سوات، نوشہرہ اور صوابی میں اراضی کے حصول کیلئے سیکشن فور لگا لیا ہے جس کے بعد بہت جلد شمشان گھاٹ اور قبرستانوں کیلئے جگہ مختص ہو گی۔
انہوں نے بتایا کہ سرکاری طور پر اراضی کے حصول کا جو طریقہ کار ہے وہ انتہائی سست ہے یہی وجہ ہے کہ سالانہ فنڈز مختص ہوتے ہیں لیکن مشکل طریقہ کار کی وجہ سے اراضی کے حصول میں مشکلات پیش آتی ہیں، ان تمام خدشات کے باوجود، ہارون سرب دیال حکومت کی طرف سے کئے گئے چند اقدامات کو حوصلہ افزاء قرار دیتے ہیں۔ ہارون سرب، حکومت کے چند اقدامات سے مطمئن بھی نظر آتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ مساجد کے آئمہ کرام کیلئے ماہانہ وظیفے کے طرز پر اقلیتی عبادت گاہوں کے منتظمین کیلئے بھی ماہانہ اعزازیہ مقرر کرنا مثبت اقدام ہے۔ بیوہ فنڈ، میڈیکل اسسٹنٹس اور اقلیتی نوجوانوں کیلئے سکالرشپس کی فراہمی سے کمیونٹی مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی۔
سرب نے مذہبی سیاحت کا بھی تذکرہ کیا اور کہا کہ خیبر پختونخوا میں پرانے اور تاریخی مندر، گوردوارے اور گرجا گھروں کی تعمیر نو اور بحالی پر کام ہو رہا ہے جس سے مذہبی سیاحت کو فروغ ملے گا۔
صوبے میں اقلیتوں کی آبادی
2017 کی مردم شماری کے مطابق خیبر پختونخوا میں اقلیتوں کی تعداد چار لاکھ کے قریب ہے جو صوبے کی کل آبادی کے حساب سے 0.03 بنتی ہے، ان میں مسیحی برادری کی تعداد 0.15، ہندو برادری کی 0.02، کیلاش کمیونٹی کی آبادی چار ہزار اور سکھ برادری کی بھی بڑی تعداد رہائش پذیر ہے۔ اس کے علاوہ صوبے میں بہائی کمیونٹی کے لوگ بھی ہیں تاہم ان کی تعداد دیگر مذاہب کے لوگوں کی نسبت انتہائی کم ہے
اقلیتی برادری کیا چاہتی ہے؟
آبادی کی شرح کم ہونے کی وجہ سے اقلیتی کمیونٹی جہاں حکومتی سطح پر نظرانداز ہو رہی ہے وہیں دیگر فورم پر بھی انہیں محروم رکھا جاتا ہے۔
ہارون سرب دیال کی تجویز ہے کہ صوبے میں اقلیتوں کیلئے الگ کمیشن قائم کیا جائے جس میں قوانین اور پالیسی متعارف کرانے کیلئے ماہر اور ہائی کوالیفائیڈ لوگ شامل ہوں جو سیاست سے بالاتر ہو کر کمیونٹی کے مسائل احسن طریقے سے حل کر سکیں۔
سکھ کمیونٹی کی خاتون مشال کور کہتی ہیں کہ دو ماہ قبل انہیں ترکی میں منعقدہ یوتھ لیڈرشپ کانفرنس میں شرکت کیلئے شوہر کے ہمراہ روانہ ہونا تھا تاہم مجوزہ میرج ایکٹ کی وجہ سے ان کے پاس شادی کا سرٹیفکیٹ نہیں تھا جو کہ کانفرنس کی ضرورت تھی۔ اس بناء پر ان کی کانفرنس میں شرکت کا خواب ادھورا رہ گیا۔
انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹیز میں پہلی مرتبہ اقلیتوں کیلئے چار فیصد کوٹہ مختص کیا گیا ہے جبکہ جاب کوٹہ تین فیصد سے بڑھا کر پانچ فیصد کر دیا گیا ہے لیکن فنی تعلیم کے حصول میں اب بھی اقلیت کے نوجوانوں کیلئے مشکلات درپیش ہیں، اس میں بھی الگ کوٹہ مختص ہونا چاہئے بالخصوص خواتین کیلئے فنی تعلیم کے ادارے قائم کئے جائیں۔
مشال کور کا یہ بھی کہنا تھا کہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں سیاست میں آنا چاہتے ہیں، لیکن کوئی بھی سیاسی جماعت انہیں مواقع فراہم نہیں کرتی جس کی وجہ سے اقلیت کے نوجوانوں کا ٹیلنٹ ضائع ہو جاتا ہے۔
خیبر پختونخوا حکومت کے اقلیتوں کے لئے اقدامات
خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے اقلیتی امور اور کیلاش مذہب کے پہلے رکن صوبائی اسمبلی وزیر زادہ نے بتایا کہ خیبر پختونخوا میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کیلئے قانون سازی گزشتہ حکومتوں میں نہیں ہوئی، ہماری حکومت نے رواں مالی سال کے بجٹ میں برادری کیلئے 1 ارب 45 کروڑ روپے کی خطیر رقم مختص کی، ملازمتوں اور یونیورسٹیوں میں اقلیتوں کیلئے مختص کوٹہ بڑھا دیا ہے، مینارٹیز کو قومی دھارے میں لانے کیلئے ان کی عبادتگاہوں کی تعمیر و مرمت کے کئی منصوبے مکمل ہو چکے ہیں جبکہ متعدد پر کام جاری ہے، مانسہرہ میں ہندوؤں کے تاریخی مندر شیو مندر کی عظمت رفتہ بحال کی ہے جبکہ گردواروں کی تزئین و آرائش کے لئے بھی فنڈز رکھے ہیں۔
رکن صوبائی اسمبلی وزیر زادہ کا کہنا تھا کہ اقلیتوں کی رہائش کے لئے 6 کروڑ روپے کی لاگت سے نئی کالونیاں قائم کی جائیں گی جبکہ کیلاش میں بھی قبرستان کے حوالے سے کام جاری ہے، وزیر زادہ نے بتایا کہ صوبے اور ضم اضلاع کی اقلیت کے نوجوانوں کیلئے انٹرمیڈیٹ اور بیچلر سطح پر تعلیمی وظائف کیلئے 15 کروڑ روپے رکھے ہیں جبکہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں گزشتہ سال ریہبلٹیشن آف مینارٹی وکٹم آف ٹیررازم انڈومنٹ فنڈ ایکٹ 2020 پاس کیا ہے جس کے تحت دہشتگردی سے متاثرہ افراد کو خصوصی پیکج دیا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ خیبر پختونخوا حکومت اقلیتوں کی عبادت گاہوں کے تحفظ کیلئے اقدامات اٹھا رہی ہے، ”سینکڑوں سال پرانے مذہبی مقامات کی بحالی اور تعمیر نو پر بھی کام کیا جا رہا ہے تاکہ مذہبی سیاحت کو فروغ دیا جا سکے۔”