خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

پشاور کے پیس پروموٹرز: مذہبی ہم آہنگی کی ایک زندہ مثال 

خالدہ نیاز

ماریہ اپنے نیٹ ورک کے چار لڑکوں کے ساتھ پشاور کے ایک مقامی پارک میں بیٹھی ہیں جہاں وہ کرونا وائرس کی وجہ سے اپنی سرگرمیاں متاثر ہونے اور اس کو دوبارہ شروع کرنے کے حوالے سے بات کررہی ہیں۔ نوجوانوں کا یہ گروپ پیس پروموٹرزنامی نیٹ ورک کا حصہ ہے جو 2018 سے پشاور میں بین المذاہب ہم آہنگی اور امن کے لیے کام کررہا ہے۔ 

پیس پروموٹرز نیٹ ورک پشاور سے تعلق رکھنے والی دو بہنوں میمونہ اختر اور ماریہ اختر نے شروع کیا اور اب مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے 200 سے زیادہ نوجوان اس نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔ 

لوگوں کے دلوں میں نفرتیں کم کرنے کے لیےاس نیٹ ورک کو شروع کیا

 اس نیٹ ورک کا مقصد نوجوانوں کو مذہب سے بالاتر ہوکر ایسا پلیٹ فارم فراہم کرنا ہے جہاں وہ کھل کر، اپنے مسائل پر بات کرسکیں اور اپنے مذاہب کے حوالے سے جڑی غلط فہمیوں کو بھی دور کرسکیں۔ پشاور سے تعلق رکھنے والی ماریہ جو پیشے کے لحاظ سے ایک صحافی اور پیس پروموٹرز کی شریک بانی ہیں ، کا کہنا ہے کہ انہوں نے مذاہب کے حوالے سے لوگوں کے دلوں میں نفرتیں کم کرنے کے لیےاس نیٹ ورک کو شروع کیا کیونکہ انکو لگتا ہے  کہ نفرتیں تب پھیلتی ہیں  جب لوگ غلط فہمیوں کا شکار ہوتے ہیں۔ ماریہ کا کہنا ہے کہ  ان کے نیٹ ورک میں ہندو، سکھ، عیسائی، اہل تشیع اور مسلمان ممبران شامل  ہیں، جو سب رضاکارانه طور پر انکے ساتھ کام کرتے ہیں۔

 ماریہ کہتی ہیں کہ لوگوں  کی سوچ بنی ہوئی ہے کہ ہندو مسلمان کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتا اور مسلمان ہندو کے ساتھ، لوگوں کے دلوں میں دوسرے مذاہب کے لیے نفرت ہے۔  ہم چاہتے ہیں کہ جو غلط فہمیاں ہیں ایک دوسرے کی مذاہب کے حوالے سے موجود ہیں  اور جو نفرت ہے اس کو کم کیا جاسکے۔ 

ہم امن محبت اور انسانیت کی بات کرتے ہیں

‘ ہم پشاور کے مختلف مقدس مقامات چاہے وہ گردوارے ہو، مساجد ہو چرچ ہو یا مندر ہو وہاں جاکر امن محبت اور انسانیت کی بات کرتے ہیں، ہم خاص طور پر دیکھتے ہیں کہ مختلف مذاہب میں کونسی چیزیں مشترک ہے جو امن اور محبت کی طرف لے جاسکتی ہے ناکہ ہمیں ایک دوسرے سے دور کرسکتی ہے’ ماریہ نے کہا۔

ماریہ نے بات چیت کے دوران کہا کہ اپنی مجالس میں وہ اس بات کو خاص توجہ دیتے ہیں کہ خواتین کا امن میں کیا کردار رہا ہے اور یا وہ امن کے حوالے سے کیا کردار ادا کرسکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس نیٹ ورک کو انکی بہن میمونہ اور انہوں نے شروع کیا جس کا مقصد تنوع کو فروغ دینا تھا، انکو کسی کی جانب سے کوئی فنڈنگ نہیں ہوتی انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اس نیٹ ورک کو شروع کیا، پہلے وٹس ایپ گروپ بنایا تھا جس میں وہ نیٹ ورک کی سرگرمیوں کے حوالے سے بات چیت کرتے تھے اور اس کے بعد میٹنگز شروع کی۔

 اپنی کامیابیوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2019 میں انکو کامیاب جوان پروگرام کے تحت ایک گرانٹ ملا جس کے تحت انہوں نے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد اور ایکسپرٹ سے امن کے بارے میں رائے لی اور پھر اس کو شائع  کیا۔

کھانے کی چیزوں کو ایک دوسرے کے ساتھ تبدیل کرکے کھاتے ہیں

 ماریہ کے مطابق انکو کسی ادارے کی طرف سے کوئی باقائدہ فنڈنگ نہیں ہوتی اور سرگرمیوں پر جتنا بھی خرچہ ہوتا ہے وہ ممبرز اپنی جیب خرچ سے کرتے ہیں۔ ہم ایسا کرتے ہیں جب بھی کوئی سرگرمی ہوتی ہے تو تمام ممبرانز کو کہتے ہیں کہ اپنے ساتھ کھانے کی کوئی چھوٹی موٹی چیز لے آئے اور ڈسکشن میں حصہ لے اور جب سرگرمی ختم ہوتی ہے تو ان چیزوں کو ایک دوسرے کے ساتھ تبدیل کرکے کھاتے ہیں ایسا نہیں ہوتا کہ جو بندہ جو لایا ہوتا ہے وہ وہی کھاتا ہے جس کا بنیادی مقصد ان باتوں کو ختم کرنا ہے کہ مسلمان کسی دوسرے مذہب کے لوگوں کا کھانا نہیں کھا سکتے یا دوسرے جو مذاہب کے لوگ ہیں وہ مسلمانوں کا کھانا نہیں کھا سکتے۔

ماریہ نے کہا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے انکی سرگرمیاں بھی متاثر ہوئی ہے اور پچھلے دو سال سے انہوں نے کوئی سرگرمی نہیں کی لیکن انہوں نے نیٹ ورک کو ختم نہیں کیا بلکہ اب وہ چاہتی ہیں کہ پشاور سے باہر بھی پیس پروموٹرز کی سرگرمیوں کو شروع کریں۔

مائنارٹی رائٹس فورم پاکستان کے چیئرمین رادیش سنگھ ٹونی کے مطابق پورے خیبرپختونخوا میں ایک لاکھ 38 ہزار کرسچن کمیونٹی، 10 سے 15 ہزار سکھ کمیونٹی اور 8 ہزار کے قریب ہندو کمیونٹی کے افراد زندگی بسر کررہے ہیں۔

سکھ کمیونٹی کے مذہبی رہنما بالبیر سنگھ کا کہنا ہے کہ پیس پروموٹرز مذہبی ہم آہنگی کی ایک زندہ مثال ہے۔ انہوں نے نیٹ ورک کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس سے مذہبی ہم آہنگی کو فروغ مل رہا ہے اور دوسرے مذاہب کو سمجھنے میں مدد بھی مل رہی ہے۔ بالبیر سنگھ نے بتایا کہ نیٹ ورک نے کرونا وائرس سے پہلے پشاور میں گردوارے کا وزٹ کیا تھا جہاں انہوں نے وزٹ کے بعد گروپ کے ممبرز کو اپنے مذہب کے حوالے سے بتایا جس کے بعد ان نوجوانوں کی سکھ مذہب کے حوالے سے بہت ساری غلط فہمیاں دور ہوگئی اور انکو بھی بہت اچھا لگا۔ 

‘ایک ہندو کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ وہ عاشق رسول ہے’

 پیس پروموٹرز نیٹ ورک میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے نوجوان ممبرز ہیں جن میں  ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والا روہن سربدیال بھی شامل ہے۔ روہن سربدیال پیس پروموٹرز نیٹ ورک کا ممبر ہونے کے ساتھ ساتھ پروانشل یوتھ اسمبلی خیبرپختونخوا کے اقلیتی امور کے وزیر اور شعور فاونڈیشن ممبر بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انکا نیٹ ورک پیس پروموٹرز اپنے مقصد میں کافی حد تک کامیابی حاصل کرچکا ہے کیونکہ نیٹ ورک کی سرگرمیوں کے بعد انہوں نے ایک ہندو کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ وہ عاشق رسول ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ دوسرے مذاہب کو مانتا ہے تسلیم کرتا ہے ہاں لیکن وہ اپنا مذہب تبدیل نہیں کرتا۔

روہن سربدیال نے کہا کہ اہل تشیع کے ساتھ وقت گزارا تو پتہ چلا کہ ان کے بارے میں جو کہا جاتا تھا وہ سب غلط باتیں ہیں ان میں عاجزی محبت اور خلوص بہت  زیادہ ہے، ہندوں کیلئے دیگر مذاہب میں جو باتیں ہوتی تھی تو وہ بھی غلط نکلی تمام حقائق جب سامنے آئے تو ہمیں معلوم ہوا کہ یہ نفرتیں ان لوگوں نے پھیلائی ہے جن کے دلوں میں فتور تھا، ان چیزوں سے رویہ بدلا، ہم نے کرسمس ایک ساتھ منایا، ہم نے عید ایک ساتھ منائی،ہم ایک دوسرے کے پاس جاتے ہیں، ایک دوسرے کو عزت دیتے ہیں۔

 ‘میں بذات خود ایک ہندو ہوں لیکن میں تمام مذاہب کو مانتا ہوں کیونکہ میرا مذہب انسانیت ہے، تمام مذاہب میرے اپنے ہیں’ روہن سربدیال نے کہا۔

 انہوں نے کہا کہ پیس پروموٹرز کے ساتھ وہ پچھلے دو سال سے منسلک ہے جس کے دوران انہوں نے مختلف کلچرز سے وابستہ افراد کے ساتھ ملاقاتیں کی ہے جس سے ایک دوسرے کے مذاہب کو سمجھنے میں کافی مدد ملی۔  

امن کی شروعات دماغ سے ہوتی ہے

‘امن ہم سے شروع ہے، اس کی شروعات دماغ سے ہوتی ہے، اگر میرے دل میں دوسرے مذہب، دوسرے کلچر دوسر  شخص کیلئے نفرت ہے تو پھر امن نہیں ہوگا، امن تب ہوگا جب ہم ایک دوسرے کو تسلیم کریں گے، ایک دوسرے کو عزت دینگے، ایک دوسرے کو سمجھیں گے ایک دوسرے کے مذاہب کو قبول کریں گے سب کو سب کا حق دو یہ امن ہے’۔ 

 مائنارٹی رائٹس فورم پاکستان کے چیئرمین رادیش سنگھ ٹونی کے مطابق پشاور میں 6900 کے قریب اقلیتی برادری کے لوگ موجود ہے جن میں 17 ہزار کرسچن کمیونٹی، دو سے ڈھائی ہزار سکھ کمیونٹی اور 2200 کے قریب ہندو برادری کے لوگ شامل ہیں۔ 

صحافی محمد فہیم جو اکثر اوقات اقلیتی برادری کے مسائل پر رپورٹنگ کرتے ہے کا کہنا ہے کہ پیس پروموٹرز کا یہ اقدام انتہائی خوش آئند ہے اور یہ کام کسی ایک نیٹ ورک کو نہیں کرنا چاہیئے بلکہ معاشرے کے ہر فرد کو چاہیئے کہ دوسرے مذاہب کے حوالے سے اپنی غلط فہمیاں دور کریں۔

مذاہب کے حوالے سے معلومات ملنے کے بعد بہت ساری غلط فہمیاں دور ہوسکتی ہے

 انہوں نے کہا کہ پیس پروموٹرز کے نوجوان کوشش کررہے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے مذاہب کے حوالے سے معلومات حاصل کرلے جس سے بہت ساری غلط فہمیاں دور ہوسکتی ہے۔ ‘ اکثر ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کو دوسرے مذاہب کے حوالے سے معلومات نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ غلط فہمیوں کا شکار ہوجاتے ہیں، جب دوسرے مذاہب کے بارے میں صحیح معلومات نہیں ہوتی تو پھر لوگ منفی باتوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں دوسرے مذاہب کے حوالے سے جس سے ان کے دلوں میں نفرت پیدا ہوجاتی ہے تو پیس پروموٹرز ہو یا باقی نیٹ ورکس جو امن کے لیے کام کررہے ہیں انکی سرگرمیوں سے مل کربیٹھنے سے غلط فہمیاں دور ہوجاتی ہے اور لوگ ایک دوسرے کے مذاہب کے حوالے سے بھی معلومات حاصل کرلیتے ہیں’ محمد فہیم نے بتایا۔

 ماریہ نے بتایا کہ کافی لوگوں نے انکے اس اقدام کو سراہا ہے کہ پشاور کی لڑکیوں نے مذہبی ہم آہنگی کے لیے کام شروع کیا ہے البتہ انکو تھوڑی بہت مشکل مقدس مقامات میں سرگرمیاں کرنے میں پیش آتی ہے کیونکہ وہاں پر سکیورٹی کا مسئلہ ہوتا ہے اور جانے سے پہلے اجازت لینا ہوتی ہے باقی انکے حوصلے بلند ہے۔

 پیس پروموٹرز کے موجودہ چیئرمین ریاض غفور کا کہنا ہے کہ اس نیٹ ورک کا بنیادی مقصد پشاور میں رہنے والے تمام اقلیتوں کے درمیان ناچاقیاں یا ایسی افواہیں جو یہاں پھیلی ہیں انکو جڑ سے مٹانا اور اقلیتوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے کام کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس میں ان کا ٹارگٹ نوجوان ہیں کہ انکے ساتھ بات کریں انکے ساتھ بیٹھیں۔ ہمارا طریقہ کار یہ تھا کہ ہم مثال کے طور پر شیا سنی ، ہندو ، سکھ ، مسلمان سب کو ساتھ بٹھائے، اور انکے ذہنوں میں دوسرے فرقوں یا مذاہب کے حوالے سے جو سوالات اور غلط فہمیاں ہیں اس پہ بات کی جائے۔ ‘سب سے پہلے ہم شیعہ مسلک کے مسجد گئے وہاں ہمارے نوجوان جس میں لڑکے لڑکیاں سب تھے انکو اس مسجد کے پیش امام نے ساری بریفینگ دی اور وہاں پر سنیوں نے شیعہ سے سوالات کئے۔  اسکے علاوہ اور مذاہب جیسا کہ کرسچن سکھ یا ہندو نوجوانوں نے سوالات کئے ایک دوسرے کے مذاہب کے حوالے سے، اسکے بعد ہم چرچ گئے اور چرچ کے علاوہ ہم گردوارہ گئے ہیں مندر گئے ہیں اور پشاور کے مختلف علاقوں میں گئے گور گھٹری گئے اور جوگن شاہ کے در مسال گئے ہیں  پشاور صدر میں موجود مندر گئے ہیں اسکے علاوہ ہمارے گروپ میں سکھ ، شیعہ، ہندو اور مختلف مسلک کے بھائی موجود ہیں تو ہم مختلف مذہبی مقامات پر جاتے ہیں اور لوگوں کے ذہن میں موجود سوالات پوچھتے ہیں مذاہب کے حوالے سے تاکے کنفیوزن ختم ہوسکے۔ 

مذاہب کے درمیان نفرت کو درمیان سے ہٹا کر امن کو راستہ دینا چاہتے ہیں

ریاض غفور کا کہنا ہے کہ پیس پروموٹرز کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ خیبرپختونخواہ میں اور خصوصی طور پر پشاور میں مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دیں اور مسلکوں اور مذاہب کے درمیان جو نفرت ہے اسکو درمیان سے ہٹا کر امن کو راستہ دیں۔ 

چیئرمین پیس پروموٹرز نے کہا کہ جب کوویڈ19 آیا تو احتیاطی تدابیر اپنانا ضروری تھی تو اس کی وجہ سے انہوں نے تمام سرگرمیاں سوشل میڈیا تک محدود رہ کردی ہے، آن لائن میٹنگز میں گروپ ممبران شرکت کرتے ہیں اور اس دوران اگر کسی کا کوئی سوال ہوتا ہے تو ہم کوشش کرتے ہیں کہ انکو ایکسپرٹس کے ساتھ بٹھائیں تاکہ انکو انکے جوابات مل سکیں۔ 

ریاض غفور نے کہا کہ جیسے ہی کرونا وائرس میں کمی آئے گی تو ان کا نیٹ ورک پھر سے اپنی سرگرمیاں بحال کرے گا تاکہ یہ پیس پروموٹرز اپنے حصے کا کام کرسکے۔

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button