نوشہرہ میں عجیب طرزتعمیر والا سو سالہ پرانا کنواں، تاریخی ورثہ معدوم ہونے لگا
انورزیب
نوشہرہ میں معروف روحانی شخصیت کاکا صاحب کے مزار کی جانب جانے والی کچی سڑکے کے دائیں جانب ایسوڑی بالا میں باولی آج بھی اصلی حالت میں موجود ہے۔ یہ باولی سو سال پہلے تعمیر کی گئی تھی۔
باولی چوڑے منہ کے اس کنویں کو کہتے ہیں جس میں پانی تک پہنچنے کے لئے سیڑھیاں ہوں . ایسے کنویں یا باولیاں پرانے زمانے میں برصغیر پاک و ہند میں بڑی تعداد میں موجود تھیں جن میں وقت گزرنے کے ساتھ بہت سی ختم ہوگئی ہیں لیکن دونوں ممالک میں اب بھی چند ایک باولیاں اصلی حالت میں موجود ہیں تاہم مختلف مقامات پر ان باولیوں کے ساخت الگ ہے۔
نوشہر میں قائم یہ باولی آج سے تقریبا سو سال پہلے میر اسلم خان خٹک نامی شخص نے بنوائی تھی۔ میر اسلم خان خٹک ایک کاروباری اور سماجی شخصیت تھے جنہوں نے اس کی تعمیر کے لئے ہندوستان کے شہر ناگپور سے ماہرین بلوائے تھے۔ اس باولی کو میر اسلم خان باولی کے نام سے ہی جانا جاتا ہے۔
تاریخی مقامات میں دلچسپی رکھنے والے نوشہرہ کے سمید خٹک کا کہنا ہے کہ یہ باولی 1895 سے 1910 کے دوران تعمیر کی گئی تھی۔ باولی تعمیر کرنے کا مقصد کاکا صاحب مزار پر جانے والے زائرین کیلئے پانی کی فراہمی تھی جس کے لئے دو کنال کی زمین ایک مقامی شخص نے وقف کی تھی۔
خٹک کے مطابق نوشہرہ میں پانچ چھ باولیاں تھیں تاہم یہ والی باولی اصلی حالت میں ہے باقی تقریبا ختم ہوچکی ہیں۔
اس تاریخی باولی میں مقامی طور پر پائے جانے والے پتھر استعمال کئے گئے ہیں۔ چھت کیلئے ان پتھروں کو انتہائی نفاست کے ساتھ ایک ہی سائز میں تراش کر ریت اور چونے کے زریعے جوڑا گیا ہے۔ سیڑھیوں کے اوپر بارہ فٹ کا خوبصورت داخلی دروازہ تعمیر کیا گیا ہے۔ نیچھے جانے کیلئے بھی ایک الگ راستہ ہے۔
اس باولی میں پانی تک پہنچنے کیلئے 64 سیڑھیاں ہیں۔ نیچھے اترتے ہوئے کالے پتھروں کے محرابی چھت انتہائی خوبصورت لگتا ہے۔ شدید گرمی میں بھی یہاں ہر سیڑھی اترتے ہوئے درجہ حرارت کم ہونا معلوم ہوتا ہے۔
پینے کے پانی کیلئے باولی کی تاریخ کافی پرانی ہے۔ انشینٹ پاکستان نامی ایک مقالے کے مطابق برصغیر میں پہلی باولی 1210 سے 1236 کے دوران سلطان شمس الدین التمش کے دور میں تعمیر کی گئی تھی۔ یہ باولی کندک کی باولی کے نام سے جانی جاتی تھی جو کے ہندوستان میں قطب شاہ کے مزار کے قریب ہے۔
پاکستان اور ہندوستان میں چار سے زائد اقسام کے باولیاں پائی جاتی ہے جن میں سے بیشتر اس وقت کے ان گزرگاہوں کے ساتھ ساتھ تعمیر کئے گئے ہیں جن پر مسافروں کا آنا جانا زیادہ ہوتا تھا۔
پشاور اور نوشہرہ میں جی ٹی روڈ کے آس پاس8 باولیاں تھیں۔ ایک باولی چمکنی باولی کے نام سے مشہور تھی جو کہ دامان گاوں میں مغل دور کے سرخ اینٹوں سے تعمیر کی گئی تھی۔
ترناب، اضاخیل، اوائی، اکوڑہ خٹک، اسوڑی پایاں، ادمزئی اور جہانگیرہ میں بھی ایک ایک باولی تھی جن میں اکثر اس وقت اپنی اصلی حالت میں موجود نہیں۔
مقامی صحافی شہزاد احمد کا کہنا ہے امیر اسلم خان خٹک نے اٹک سے پشاور تک مختلف مقامات باولیاں تعمیر کی تھیں جس میں سے ایک یہ ہے۔ یہ ایک تاریخی ورثہ ہے۔اس باولی کی گہرائی 91 فٹ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میر اسلم خان باولی کو چند سال پہلے کسی نے نقصان پہنچانے کی کوشش کی تھی جس پر حکومت نے اس وقت ایکشن لیا تھا لیکن اب پھر اس تاریخی ورثے کی حفاظت کے لئے کوئی ٹھوس اقدام نظر نہیں آ رہیں۔میر اسلم خان باولی میں موجودہ وقت میں بھی دو فٹ گہرا پانی موجود ہے لیکن صفائی نہ ہونے کی وجہ سے یہ ناقابل استعمال ہے۔ باولی کو راستے پر آنے جانے والوں اور سیاحون نے پتھر اور لکڑیاں پھینک کر بھی گندہ کیا ہے۔