بلاگزخیبر پختونخوا

ریل والا کیمرہ، میری بچپن کی یادیں اور موبائل فونز کی تصاویر

انیلہ نایاب

شادی کی تقریب میں فوٹو گرافر کے ہاتھ  میں ریل والا کیمرہ ہوتا تھا  جس میں ٹوٹل 36 تصاویر کھنچوائی جاسکتی تھی جبکہ ان چھتیس تصاویر میں دلہا دلہن کے ساتھ ساتھ  تمام  افراد ، قریبی رشتہ داروں  اور بچوں کی تصویریں لینی ہوتی تھی  چونکہ یہ کافی مشکل کام ہوتا تھا اور اکثر تقریبات میں شرکت کرنے والے لوگ اس وجہ سے ناراض ہوجاتے تھے کہ کیمرہ میں ان کی تصویر نہیں لی گئی۔

میں بھی ان لوگوں میں تھی اور سوچتی تھی کہ میرے بغیر ہر ایک تصویر نامکمل ہوگئی اس لئے میری کوشش ہوتی تھی کہ ہر تصویر میں کھڑی ہوجاؤں اور اکثر اس طرح کرتی تھی جس پر کافی بار بڑوں کی ڈانٹ بھی پڑی ہے لیکن ہمیں   تو ہر حال میں کیمرے میں آنا تھا اس لیے میں اور میری ہم جولیاں تصویر کلک ہوتے ہی دوڑ لگا کر کیمرے کے سامنے  آجاتے تھے جس سے  پوری تصویر خراب ہوجاتی تھی۔

میں آپ  کے ساتھ اپنے بچپن کا ایک  انوکھا واقعہ شئیر کرنا چاہتی ہوں جب میرے چاچو کی شادی تھی تو تب ہم چھوٹے تھے  ولیمہ ختم ہونے کے بعد جب تصاویر کھینچے کی باری آئی ( دراصل شادی ختم  ہونے  کے بعد تصاویر لینے کا فیصلہ  اس لے لیا تھا  تاکہ مہمان شادی ختم ہونے کے بعد  گھر جائے  تب ہم آرام سے  تصاویر  لینگے)۔ مسئلہ  یہاں  ختم نہیں ہوا کیونکہ میں اور میری کزنز اس  انتظار میں تھے کہ اب تصاویر  کھینچے گے چونکہ گاؤں میں چھت پر چڑھنے کے لئے  سیڑھیاں نہیں ہوتی تھی اور لوگ  لکڑی کی سیڑھی  جیسے  پشتو میں ( پارسنگ)  کہتے ہیں دیوار سے لگاکر  چھت  پر جاتے تھے۔  چاچو نے  سیڑھی دیوار سے لگاکر کہا چلو چھت پر تصاویر کھینچواتے ہیں ہم سب خوشی خوشی چھت پر گئے تو اس دوران چاچو نے سیڑھی اٹھا کر زمین پر رکھ دی اور ہم سب بچے چھت پر ہی رہ گئے۔ نیچے  دلہا دلہن  اور سب کا فوٹو شوٹ شروع ہوگیا  اور ہم بچے  اوپر سے چیخ چیخ  کر رو رہے تھے  لیکن  کچھ فائدہ  نہیں ہوا اور جب  فوٹو شوٹ ختم ہوا تب چاچو نے ہمیں  نیچے اتار دیا او ہم سب بچوں کی ایک تصویرلے لی ۔

ہم سب نے اپنے اپنے دور میں یہ باتیں سنی ہوگی کہ  کیمرہ رکھ دو  ایسا نہ ہو کوئی بٹن دباؤ اور ساری تصویریں جل جائے یا ریوائنڈ یہ ہوجائے ۔

اگر دیکھا جائے تو فوٹو گرافر یا گھر کا کوئی فرد سوچ سمجھ کر تصاویر لیتے تھے تاکہ خراب نہ ہوجائے کیونکہ ایک ریل میں گنتی کے برابر تصاویر  لینے کی گنجائش (میموری) ہوتی تھی جس کی اپنی اہمیت ہوتی تھی تاہم ریل والے کیمروں کی جگہ آج کل ڈیجیٹل کیمروں  نے لی ہے ڈیجٹل کیمرے کیا آج کل تو موبائل فونز کی تصاویر بھی بے حد خوبصورت ہوتے ہیں.  اگر ایک تصویر پسند نہ آئے تو دوسری تصویر اور اسی طرح ایک دو کیا جتنی مریضی ہو اتنی تصویریں لی جاسکتی ہیں وہ بھی اپنی مرضی سے ریل والے کیمرے میں تو بندے کو یہ تک پتہ نہیں ہوتا تھا کہ میری تصویر کیسی آئی ہے  اور جب کئی دنوں کے بعد تصویر صاف ہوکر آتی تھی تب پتہ چلتا  کہ کیسی ہے۔

آج ڈیجٹیل کیمرہ اور موبائل ہونے کے باوجود مجھے ریل والے کیمرے کی 36 تصاویر یاد آتے ہیں کیونکہ اس وقت جب کافی رونے کے بعد صرف ایک تصویر لی جاتی تھی اس کا اپنا مزہ ہوتا تھا جبکہ آج میں  اپنی موبائل  کیمرے سے ایک  دو نہیں  ہزاروں تصاویر لے سکتی ہوں  اور ایڈیٹ کرکے خوبصورت بھی بناسکتی ہوں لیکن ان تصویروں کی بات  کچھ اور ہوتی تھی لیکن میں پھر بھی موبائل کیمروں کی کافی شکر گزار ہوں کہ وہ میری بچپن کی خواہش کو پورا کرتے ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button