خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

پشاور میں دفنانے سے منع کیے گیے افغان بچے کو زمین کہاں نصیب ہوئی؟

رفاقت اللہ رزڑوال

"ہمارے ساتھ بڑی زیادتی ہوئی ہے، میں آپکو بتا نہیں سکتا کہ کیسے مقامی لوگوں نے ایک معصوم بچے کی لاش کو دفنانے سے روک دیا”؟
یہ کہنا تھا افغانستان میں ڈوب کر جاں بحق ہونے والے 11 سالہ بچے کے ماموں سیدا جان کا جو پشاور کے علاقہ چمکنی میں چالیس سالوں سے رہائش پذیر ہے۔
سیدا جان نے ٹی این این کو بتایا کہ تقریبا چھ دن قبل انکا بھانجا افغانستان میں بارہ افراد کے ساتھ دریا میں چکر کاٹ رہا تھا کہ اچانک دریا کے موجوں نے کشتی اُلٹ دی اور انکے بھانجے سمیت سب ڈوب گئے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں اُنکے بہنوئی نے انہیں فون کےذریعے واقعے کی اطلاع دی اور کہا کہ یہاں پر وہ لاش ڈھونڈنے کی کوشش کررہے ہیں مگر کامیاب نہ ہوسکے۔

سیدا جان نے مزید بتایا کہ تقریباً چھ دن بعد ریسکیو 1122 کی سوشل میڈیا پیج سے مسخ شُدہ بچے کی لاش کی تصویر جاری ہوئی مگر زیادہ دیر تک پانی میں رہنے سے انکی شکل تبدیل ہوگئی تھی۔ سیدا جان کے مطابق انہوں نے ریسکیو ادارے سے رابطہ کرنے پر بتایا کہ انہوں نے لاش کو ورسک کے مقام سے برآمد کیا ہے اور لاش ہسپتال میں پڑا ہوا ہے۔
سیدا جان کا کہنا ہے "لاش قابل شناخت نہیں تھی لیکن ہمارے بھانجے کی دونوں ہاتھوں کی چھ، چھ اُنگلیاں تھی جس سے ہم نے اُنکی شناخت کر لی”۔
افغان جاں بحق بچے کی لاش کو گاؤں لایا گیا جہاں پر علاقہ مکینوں نے بچے کی لاش دفنانے کی تیاری کرلی مگر کچھ لوگوں نے لاش کو مقامی قبرستان میں دفنانے سے روک دیا۔

بچے کی دوسرے ماموں شیرولی خان نے ٹی این این سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ دریاخان قبرستان میں قبر تیار تھی، عزیز و اقارب تعزیت کیلئے آ رہے تھے لیکن گاؤں والوں نے بچے پر پاکستانی جھنڈے کی بے حُرمتی کا الزام لگا کر دفنانے سے روک دیا۔

شیرولی کا کہنا ہے "میں نمازظہر میں رو رہا تھا کہ آخر ہمارے ساتھ ایسا کیوں کیا گیا، گاؤں والوں کے ساتھ جھنڈے کی بے حُرمتی کا کوئی ثبوت نہیں ہے، سوچ رہا ہوں کہ ہمارا مستقبل کیا ہوگا، ہمارا کیا بنے گا”؟
انہوں نے اس سوال کہ پاکستانی جھنڈے کی بے حرمتی کیوں کی جا رہی ہے تو شیرولی نے جواب میں بتایا کہ وہ پاکستان کے ساتھ اپنی ماں جیسی محبت کرتا ہے، اگر بچے سے گناہ سرزد بھی ہوئی ہو تو ہم اُسکی مذمت کرتے ہیں۔

بچے کی لاش کو کیوں دفنانے سے روک دیا گیا؟

لاش دفنانے کے دن سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ویڈیو کا مقام پشاور کے علاقہ چمکنی میں دریا خان قبرستان ہے۔ ویڈیو میں ایک شخص قبر کھودنے والے افراد اور تھانہ چمکنی کے ایس ایچ او حسن خان سے مخاطب ہوکر بچے کے والد پر پاکستانی جھنڈا کے بے حرمتی کا بتا رہے ہیں۔
ٹی این این نے لاش دفنانے سے منع کرنے والے شخص کی پہچان ہدایت اللہ کے نام سے کرلی، موصوف عوامی نیشنل پارٹی کے ٹاؤن تو صدر سعیداللہ کا بھائی ہے۔
ہدایت اللہ سامنے کھڑے پولیس اہلکار کی وردی پر لگے جھنڈے کو چھوم کر کہہ رہے ہیں کہ وہ پاکستانی پرچم کی بے حرمتی کھبی بھی برداشت نہیں کرسکتے۔

ویڈیو میں ہدایت اللہ بتا رہا ہے "یہ اُس شخص کا بیٹا ہے جس نے پاکستان سے نکل کر افغانستان میں پاکستان کے جھنڈے کی بے حرمتی کی تھی، یہاں پر څوکنو میں اس کو کہیں پر بھی نہیں دفنایا جائے گا”۔
جب ٹی این این نے واقعے پر ہدایت اللہ سے موقف جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا کہ وہ اس وقت کالام میں ہیں اور موقف نہیں دے سکتا ادارے نے اُنکے ہم خیال لوگوں سے بھی موقف لینے کا کہا لیکن وہ بھی انکار کر گئے۔
وائرل ویڈیو میں تھانہ چمکنی کا ایک اہلکار بھی مصلحت کا شکار دکھائی دے رہا ہے اور کہتا ہے کہ روایات کے مطابق مردے کو آبائی گاؤں میں دفنایا جاتا ہے۔
دوسری طرف تھانہ چمکنی کے ایس ایچ او حاجی ابراہیم نے ٹی این کو بتایا کہ واقعے میں کسی قسم کا مقدمہ درج نہیں کیا گیا اور پولیس پہنچنے سے پہلے افغانی بچے کو طورخم پر لے گئے تھے۔

بچے کو کہاں پر دفن کیا گیا؟

بچے کے ماموں نے بتایا کہ جب گاؤں والوں نے قبر کھودنے سے روک دیا تو انہوں نے بچے کی لاش کو افغانستان میں دفنانے کا فیصلہ کیا، جہاں پر وہ رات کو طورخم بارڈر پر لے گئے لیکن کسٹم حکام نے افغان قونصلیٹ پشاور سے این او سی لینے کا کہا۔
این او سی کیلئے دوبارہ پشاور آئے اور سفارتخانے سے اجازنامہ لے کر گئے جہاں بچے کو اُنکے ماں باپ کے حوالے کرکے وہاں پر تدفین کر دی گئی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button