انتہاپسندی کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کیلئے نصاب میں تبدیلی کرنا ہو گی: ماہرین
رفاقت اللہ رزڑوال
خیبرپختونخوا کے نجی تعلیمی اداروں میں انتہاپسندی کی روک تھام اور اسکے خلاف شعور اُجاگر کرنے کیلئے انسدادی دہشتگردی کے ادارے نیشنل کاؤنٹر ٹیرورزم اتھارٹی (نیکٹا) اور ہائر ایجوکیشن ریگولیٹری اتھارٹی (ہیرا) کے درمیان مفاہمتی یاداشت پر دستخط ہوا ہے۔
مفاہمتی یاداشت کے تحت طلباء میں دہشتگردی اور انتہاپسندی کے خلاف شعور اجاگر کرنے کیلئے مختلف قسم کے پروگرامز رکھیں جائیں گے جن میں طلباء کے درمیان کُھلی بحث، سیمینارز، ورکشاپس، مضمون نویسی اور دوسروں کو دہشتگردی سے محفوظ رکھنے کیلئے منصوبے شامل ہیں۔
دونوں اداروں کے درمیان مفاہمتی یاداشت کے اسناد ہائر ایجوکیشن ریگولیٹری اتھارٹی کے ویب سائٹ پر جاری کئے گئے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ اس ضمن میں خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع پر خاص توجہ دی جائی گی اور دونوں اداروں نے قبائلی اضلاع میں تحقیقی کام کو مزید مستحکم اور موثر بنانے پر زور دیا ہے۔
انتہاپسندی کی روک تھام میں دونوں اداروں کا اقدام کتنا موثر ہوگا؟
محقیقین نے تعلیمی اداروں میں انسداد دہشتگردی و انتہاپسندی کی روک تھام کے اس عمل کو قابل تحسین قرار دیا ہے لیکن ساتھ اسے ناکافی بھی قرار دیا اور کہا ہے کہ اس سے پہلے ملک کے کئی بڑے تعلیمی اداروں سے طلباء دہشتگردی اور انتہاپسندی کی طرف راغب ہوئے ہیں تو بنیادی طور پر مسئلے کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کیلئے نصاب میں تبدیلی کرنی ہوگی۔
نیکٹا اور ہیرا کے درمیان مفاہمتی یاداشت میں کہا گیا ہے کہ اس اقدام سے طلباء، اساتذہ اور پورے تعلیمی نظام کو انتہاپسندی سے روکنے میں مدد ملے گی۔
باچاخان مرکز پشاور کے کلچر ڈائریکٹر ڈاکٹر خادم حسین نے دونوں اداروں کے درمیان ہونے والی مفاہمتی یاداشت کو قابل تحسین قرار دے کر کہا کہ اگر صحیح معنوں اور خلوص نیت کے ساتھ بحث و مباحثوں، ثقافتی پروگراموں اور روشن خیال افکار کو جگہ دی جائے تو انتہاپسندی میں کمی ہوسکتی ہے۔
ڈاکٹر خادم حسین نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ انتہاپسندی کو ختم کرنے کیلئے نصاب سے جنگجوؤں، نفرت، صنفی امتیاز کو فروغ دینے والے واقعات کو مٹانا ہوگا اور اسکی جگہ مقامی ثقافتی سرگرمیاں، نغمے، جمالیات اور محبت کو فروغ دینا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اسکے علاوہ دونوں اداروں کے درمیان ہونے والی مفاہمت کا دائرہ کار دیہاتی علاقوں تک بڑھایا جائے اور دیہاتی علاقوں میں تعلیمی اداروں کے لئے مزید فنڈ جاری کرنے کے ساتھ بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں پر مزید کام کرنا ہوگا۔
ڈاکٹر خادم حسین کے مطابق "تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کیلئے ضروری ہے کہ سکولوں میں ثقافتی سرگرمیاں موسیقی، اتنڑ، شعرو شاعری اور ایجادی افکار پر زور دینا چاہئے”۔
مفاہمتی یاداشت میں مدارس اور دیگر صوبوں سے انہتاپسندی کے خاتمے کیلئے اقدامات اُٹھانے کا ذکر نہیں کیا گیا، اس پر ڈاکٹر خادم حسین نے کہا اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس ضمن میں نیکٹا غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا "کہ سب سے زیادہ انتہاپسندی صوبہ پنجاب اور دینی مدارس میں دیکھی گئی ہے جس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں، تو کیسے آپ اُسے اس عمل سے باہر رکھ سکتے ہیں”؟
پشاور یونیورسٹی ایریا سٹڈی سنٹر کے سابق چئرمین ڈاکٹر سرفراز خان کا کہنا ہے کہ سکول سے لیکر یونیورسٹی تک کتابوں میں ایسے بہت سے مواد موجود ہیں جسکے ذریعے طلباء انتہاپسندی کی طرف راغب ہوئے ہیں۔
انہوں نے ٹی این این سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے پاکستان کے کالجز اور بڑی بڑی یونیورسٹیوں سے ایسے بہت پڑھے لکھے فارغ نوجوانوں کو انتہاپسندی اور دہشتگردی میں ملوث ہوتے دیکھا ہے۔
ڈاکٹر سرفراز کہتے ہیں کہ انتہاپسندی کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کیلئے نصاب میں تبدیلی کرنی ہوگی۔ "آج کے دور میں سائنسی علوم کے مضامین میں بھی اسلامی موضوعات شامل کیے جاچکے ہیں جس کی وجہ سے طلباء تنقیدی سوچ سے محروم ہوجاتے ہیں، پھر کبھی وہ غربت کے نام پر، کبھی وطن کے نام پر اور کبھی مذہب کے نام پر بآسانی گمراہ کئے جاتے ہیں”۔
تحقیق کے مطابق افغان طالبان امارات اسلامی کے ترجمان ڈاکٹر محمد نعیم نے پشاور یونیورسٹی سے اسلامیات میں بی اے کی ڈگری حاصل کی ہے اور پھر اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی سے ماسٹر اور پی ایچ ڈی مکمل کرلی ہے، اسکے علاوہ پاکستان کے دیگر اعلٰی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل طلباء یا تو براہ راست دہشتگردی میں ملوث پائے گئے ہیں یا انتہاپسندانہ سوچ رکھنے والے گروہوں کی حمایت یافتہ پائے گئے ہیں۔
ڈاکٹر سرفراز خان کا کہنا ہے کہ اداروں کے درمیان مفاہمت اور یاداشتوں پر دستخط کرنے سے بنیادی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا جب تک نصاب میں سائنسی تقاضوں کے عین مطابق تبدیلی نہ کی گئی ہو۔
انہوں نے کہا کہ نصاب کو تیار کرنے کیلئے ایک خود مختار ریویو کمیٹی تشکیل دینی ہوگی تاکہ وہ ایسا مواد شائع کرنے کی اجازت دے دیں جو تنقیدی اور تعمیری سوچ کو فروغ دے سکیں۔