خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویوکھیل

‘خیبرپختونخوا میں کھلاڑیوں کو سپورٹ نہیں کیا جاتا’

 

خالدہ نیاز

‘خیبرپختونخوا میں کھلاڑیوں کو اتنا سپورٹ نہیں کیا جاتا جتنا کیا جانا چاہیئے جس کی وجہ سے ٹیلنٹ ضائع ہورہا ہے’

پشاور سے تعلق رکھنے والی ہاکی کی کھلاڑی مومنہ کا کہنا ہے کہ صوبے میں کھلاڑیوں کو کئی ایک مسائل کا سامنا ہے پہلے تو انکو والدین کی جانب سے اجازت اور توجہ نہیں ملتی اور پھر اگر انکو گھر سے اجازت مل بھی جائے تو متعلقہ حکام انکو وہ سپورٹ نہیں دیتے جس کی کھلاڑیوں کو ضرورت ہوتی ہے۔

مومنہ پچھلے گیارہ سال سے ہاکی کھیل رہی ہیں اور ابھی تک انٹرکالج، انٹر یونیورسٹی، نیشنل اور انٹرنیشنل لیول پر 28 میڈلز جیت چکی ہے۔ وہ موجودہ وقت میں بے نظیر وومن یونیورسٹی پشاور کی جانب سے کھیل رہی ہیں اور بی ایس کررہی ہیں ہیلتھ اینڈ فزیکل ایجوکیشن میں۔ ٹی این این کے ساتھ خصوصی انٹرویو کے دوران انہوں نے کہا کہ کھلاڑیوں کے لیے جو فنڈز آتے ہیں اس سے کھلاڑیوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔

‘بس جس دن گیم ہوتی ہے اس سے دو دن پہلے کھلاڑی کو بلاکر سمجھا دیا جاتا ہے کہ ایسے ایسے کھیلنا ہے کوئی طریقے سے بتایا نہیں جاتا کہ کیا کرنا ہے اور بس گاڑی میں بٹھا کر لے جاتے ہیں کھیلنے کے لیے’ مومنہ نے بتایا

مومنہ نے کہا کہ انکو اپنے گھر والوں کی جانب سے مکمل تعاون حاصل ہے جسکی وجہ سے وہ آج اس مقام پر ہے تاہم جب انہوں نے سپورٹس کی دنیا میں قدم رکھا تو باقی خاندان والوں کی جانب سے انکو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا کہ لڑکی ہے اس کو گھر بٹھاو لیکن وہ گھر نہیں بیٹھی اور آج سب خاندان والے بھی ان پہ فخر کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انکو بچین سے شوق تھا کہ وہ ایک سپورٹس ویمن بنے گی اور بہت آگے جائے گی اور اس کے لیے انہوں نے بہت محنت کی ہے۔ ‘ جب لاہور میں ٹرائلز چل رہے تھے نیشنل لیول کے تو وہاں میں گئی تھی، پشاور سے 40 لڑکیاں گئی تھی لیکن صرف میری سلیکشن ہوئی وہاں پرایچ اسی کی طرف سے کھیلا ہے اور پھر میں وہاں سے انٹرنیشنل لیول تک پہنچی’ مومنہ نے بتایا۔

مومنہ کے مطابق سلیکشن کے بعد انکو اسلام آباد میں ایک مہینہ تربیت دی گئی اور پھر وہاں سے تھائی لینڈ گئی جہاں دو ہفتے گزارے اور دوسری پوزیشن لے کر آئی۔

مومنہ نے بتایا کہ انکے والد خود ایک کرکٹ کھلاڑی تھے اور انکو بھی کرکٹ میں آنے کا شوق تھا لیکن کرکٹ میں چونکہ فیورٹزم زیادہ ہے اس لیے پھر وہ ہاکی کی طرف آئی ‘ میں کرکٹر بننا چاہتی تھی لیکن کرکٹ میں یہ ہوتا ہے کہ یہاں پر اپنی پسند کے لوگوں کو لیا جاتا ہے جبکہ ہاکی میں آپکی فٹنس اور پرفارمنس کو دیکھا جاتا ہے’ مومنہ نے کہا۔

مومنہ نے کہا کہ کورونا نے  انکو بہت زیادہ خراب کیا ہے کوئی بھی گیم نیہں ہورہی دو سال ہوگئے ہیں وہ گھر میں بیٹھے ہوئے ہیں۔

آخر میں پیغام دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کے پی میں جو لڑکیاں ہیں وہ آئے اپنی پرفارمنس دکھائیں وہ ان کو فٹنس اور فیزیکل ٹریننگ دیں گی، والدین کو بھی چاہیئے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو کھیلنے دیں کیونکہ یہ برا شعبہ نہیں ہے اور اس میں لڑکیاں بہت آگے جاسکتی ہیں۔

 

 

 

 

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button