خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

پشتو عالمی کانفرنس منعقد کروانے والی واحد شخصیت، سلیم راز بھی نہیں رہے

رفاقت اللہ رزڑوال

پشتو زبان کے معروف ادیب، شاعر، صحافی اور محقق سلیم راز 82 سال کی عمر میں طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے، سلیم راز، پاکستان کی وہ واحد شخصیت جنہوں نے پشتو زبان کے دو عالمی کانفرنس منعقد کرائے۔

ان کی نماز جناز ضلع چارسدہ کے گاؤں سُکڑ میں رات 8 بجے ادا کی گئی، راز نے اپنے سوگواران میں چار بیٹے اور بیوہ چھوڑی ہے۔

سلیم راز کا اپنا نام محمد سلیم خان ہے، 29 مارچ 1939 کو ضلع چارسدہ کے علاقہ سُکڑ میں ملک نور محمد امان خان کے گھر میں پیدا ہوئے، راز کے والد پولیس میں بطور ڈی ایس پی ملازم تھے جس کی وجہ سے وہ اکثر اپنی پڑھائی ایک جگہ پر برقرار نہیں رکھ سکے، دسویں تک گورنمنٹ ہائی سکول نمبر 1 پشاور سے تعلیم حاصل کی جبکہ اسی سکول میں بزم ادب کے صدر اور ہاکی کے کھلاڑی بھی رہ چکے ہیں۔

1956 میں راز نے اپنی پہلی تقریر اسی سکول میں کی تھی اور پھر 1957 میں اسلامیہ کالج پشاور میں داخلہ لیا جہاں پر اُن کا شعور اور احساس مزید پختہ ہو گیا۔

بی اے کی ڈگری گورنمنٹ ڈگری کالج ڈیرہ اسماعیل خان سے حاصل کی جہاں پر وہ اسی کالج کے ‘گومل’ نامی سالانہ رسالے کے پہلے مدیر مقرر ہوئے جبکہ کالج کی ڈیبیٹنگ سوسائٹی کے صدر بھی رہے۔

ٹی این این کے ساتھ سلیم راز کی ادبی خدمات اور شاعری پر بات کرتے ہوئے مردان یونیورسٹی کے شعبہ پشتو کے چیئرمین ڈاکٹر سُہیل خان نے بتایا کہ ان کی راز کے ساتھ ہسپتال میں مُلاقات ہوئی جہاں پر وہ نہایت کمزوری کے عالم میں تھے لیکن اُن کا حوصلہ بلند تھا۔

ڈاکٹر سُہیل نے بتایا کہ سلیم راز پاکستان کی وہ واحد شخصیت تھے جنہوں نے پشتو کے دو عالمی کانفرنس منعقد کرائے جن میں ایک 1987 اور دوسرا 2002 میں تھا اور جرمنی، برطانیہ، سویڈن، امریکہ اور افغانستان سے محققین، شعرا اور ادبا نے شرکت کی تھی۔

ڈاکٹر سہیل کے مطابق اُسی دور میں شرکاء کیلئے خوراک، رہائش اور میڈیا کا انتظام کرنا کوئی آسان بات نہیں تھی۔ ”مبالغہ سے کام نہ لوں تو 1987 میں ہونے والی عالمی کانفرنس کے انعقاد کیلئے راز صاحب نے اپنی زمین تک بیچی تھی، صرف اس مقصد کیلئے کہ پشتو زبان ترقی کرے۔”

وہ کہتے ہیں کہ سلیم راز کی وفات کے باعث پیدا ہونے والا خلا زندگی بھر پورا نہیں ہو سکتا لیکن زندگی کی ترتیب کچھ ایسی ہی ہے کہ ایک نہ ایک دنیا چھوڑنا پڑے گی لیکن اُن کا بیانیہ، پیغامات اور افکار دُنیا کو پہنچانا شائد اس خلا کو پورا کر سکے۔

ڈاکٹر سُہیل کے مطابق سلیم راز نہ صرف پشتو ادب میں ایک مانے ہوئے ادیب تھے بلکہ وہ ایک بہترین صحافی بھی تھے، ان کے مطابق انہوں نے صحافت کا آغاز اس وقت کیا جب وہ کالج میں ‘گومل’ رسالے کے ایڈیٹر مقرر ہوئے جس کے بعد انہوں نے پشتو اور اردو کے مختلف اخبارات و رسائل میں لکھنا شروع کیا۔

انہوں نے پشتو کے روزناموں ‘وحدت اور ھیواد’ اور اردو زبان کے ‘حقیقت’، ‘مشرق’ اور ‘شہباز’ نامی اخباروں کے ساتھ کام کیا، روزنامہ وحدت میں ”قلم کالم” اور روزنامہ مشرق میں ”حرف راز” کے نام سے کالم لکھتے تھے۔

کتابیں

د زخمونو پسرلې 1989 (زخموں کی بہار)…. شاعری مجموعہ
تنقيدي کرښې 1999 (تنقیدی لکیریں) یہ کتاب پشتو ایم اے کورس میں بھی شامل ہے۔
له باړې تر باړه ګلۍ 2004 (باڑہ سے باڑہ گلی تک)……. رپورتاژ
زه لمحه لمحه قتليږم 2007 (میں پل پل میں قتل ہو رہا ہوں)۔۔۔۔۔۔۔ شاعری مجموعہ
پښتو شاعري يو شپيته کاله ۱۹۴۷ نه تر ۲۰۰۸ پورې 2010 ( پشتو شاعری کے 61 سال 1947 سے 2008 تک )
پښتو انشائيه تکل پنځوس کاله ۱۹۴۷ تر ۱۹۹۶ پورې (پشتو انشائیہ تکل پچاس سال 1947 سے 1996 تک
پښتو سفرنامه پنځوس کاله ۱۹۴۷ نه تر ۱۹۹۷ پورې (پشتو سفرنامہ 1947 سے 1998 تک)
يقين 2016……… اردو مقالہ
راز کی باتیں 2017
د راز لټون 2020 (راز کی تلاش)
اس کے علاوہ 45 کے قریب کتابیں چھپائی کے مرحلے میں ہیں۔

ایوارڈز

ڈاکٹر سُہیل نے کہا کہ سلیم راز نے سال 2009 میں پشتو ادب کی بہترین خدمات پر صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ 2011 میں فیض احمد فیض ایوار دہلی اور عالمی اردو ایوارڈ کانفرنس، 2013 میں عبدالولی خان یونیورسٹی میں حاجی صاحب ترنگزئی ایوارڈ، 2016 میں کاکا جی صنوبر حسین ایوارڈ اور 2017 میں اچیومینٹ ایوارڈ انجمن ترقی پسند مصنفین سے نوازے گئے تھیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button