خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

ایک ہی گھر سے ایک ساتھ سات بچوں کے جنازے، زمہ دار کون؟

کیف آفریدی

خیبرپختونخوا کے ضلع مہمندکے تحصیل امبار میں گزشتہ ہفتے ایک ہی خاندان کے سات بچے ٹینکی گرنے کے نیتجے میں لقمہ اجل بن گئے، انکے خاندان اور گاؤں والوں کا درد و غم اسی طرح تازہ ہے۔ رمضان کے مہینے میں ایک ہی خاندان کے سات لختِ جگر کے چلے جانے سے گاؤں میں کہرام مچ گیا، ہر آنکھ اشک بار ہے۔

ضلع مہمند کے علاقے گومبتے شانو کلی کے رہاشی حکیم خان کا کہنا ہے کہ ہمارے گاؤں میں پانی کی شدید قلت ہے اور یہاں کے لوگ پانی کے ایک ایک بوند کے لیے ترستے ہیں۔ گاؤں کے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت پانی کی ٹینکی بنائی تھی بجلی نہ ہونے کی وجہ سے شمسی توانائی سے چلتی ہے اور قریب ہی کنویں ہے جس سے یہ ٹینکی بھرتے ہیں جس سے گاؤں والوں کی ضرورت پوری ہوتی ہے۔ ٹی این این کے ساتھ بات کرتے ہوئے حکیم خان کا کہنا تھا کہ اسی ٹینکی سے ایک پائپ گزرا تھا جس سے قطروں میں پانی بہتا تھا اور اسی جگہ پر بچے جمع ہوتے تھے اور کھیلتے تھے۔

اٹھ مئی کو صبح گیارہ سے بارہ بجے کے درمیان بچے معمول کے مطابق کھیلنے میں مصروف تھے کہ اچانک پانی سے بھری ٹینکی ان پر گر گئی۔ گرنے کی آواز سنتے ہی ہم اپنے گھروں سے باہر نکلے اور ٹینکی کی طرف دوڑے جہاں پر ملبے تلے بچے خون میں لت پت پڑے تھے۔ حکیم خان کے مطابق علاقے والوں نے فورا ریسکیو ڈبل ون ڈبل ٹو کو کال کی اور وہ جلدی ہی پہنچ گئے پر اس دردناک سانحہ میں میری تین بیٹیاں اور چار بھتیجے موقع پر ہی جانبحق ہوگئے جبکہ ایک بھتیجا زخمی حالت میں ریسکیو والوں نے ہسپتال منتقل کیا جن کو طبی امداد دی گئی او الحمداللہ وہ اب بہتر ہے۔

حکیم خان کا کہنا تھا کہ اسی دن میری اہلیہ نے اپنی بیٹیوں کے لیے عید کے کپڑے، چپل اور کچھ دیگر اشیا خریدے تھے جو قریب میرے بھائی کے گھر لے جارہی تھی جہاں پر بچیوں کی دادی کو یہ سارا سامان دکھا رہی تھی۔ میری بیٹیاں نفیسہ جنکی عمر چھ سال وجہیہ چار سال اور مروہ جن کی عمر پانچ سال تھی عید کے تیاریوں کے لیے بہت خوش تھی اور گھر میں اکثر ایک دوسرے سے یہی بحث ہوتی کہ عید کے دن میرے کپڑے آپ کے کپڑوں سے زیادہ اچھے لگیں گے ہمیں کیا معلوم تھا کہ میری یہ لخت جگر مجھ سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو جائے گی۔ حکیم خان نے بتایا کہ کئ دن گزرنے کے باوجودبھی مجھے محسوس ہورہا ہے کہ یہ سب خواب ہے اور میری بچیاں ابھی بھی کھیل رہی ہے اور جب میں گھر جاونگا تو میری بیٹیاں مجھ سے گلے ملے گی۔

غم کی یہ داستان بیان کرتے ہوئے حکیم خان آبدیدہ ہو گئے اور کہا کہ بچیوں کی ماں کا بھی یہی حال ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے جسے دنیا ختم ہوگئی ہے۔ حکیم خان کا کہنا ہے کہ ہم تین بھائی دیہاڑی دار مزدور ہیں جبکہ ماہ رمضان میں کام نہ ہونے کی وجہ سے گھر پر ہوتے ہیں۔ اس سانحے کے فورا بعد انتظامیہ، فوج ، حکومتی نمائندے ریسکیو ڈبل ون ڈبل ٹو اور علاقے کے لوگوں نے ہمارا ساتھ دیا اور ہر قسم کی تعاون کی جن کا میں مشکور ہوں۔

وفاقی وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان بھی آئے تھے اور ہمارے ساتھ اظہار افسوس کیا اور انہوں نے ہر قسم کی تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔ ایم این اے ساجد خان مہمند ، ایم پی اے نثار مہمند اور افواج پاکستان کے آفیسر بھی ہمارے اس غم میں شریک ہوئے اور ہمیں دلاسہ دیتے رہے۔ضلع مہمند کے ڈیپٹی کمشنر غلام حبیب نے وزیر اعلی محمود خان کی طرف سے ہمیں امدادی چیک بھی دیئے ہیں۔

اس افسوس ناک سانحے میں حکیم خان کی بیٹیوں کے علاو انکے تین بھتیجے اور ایک بھتیجی بھی چل بسی۔ حکیم خان کا کہنا ہے کہ انکے بھتیجے بارہ سالہ ریحان ، عماداللہ چھ سال ، فرمان اللہ آٹھ سال اور بھتیجی منیبہ پانچ سال بھی سانحے میں چل بسے۔

حکیم خان نے مذید کہا کہ یہ ٹینکی گاؤں والوں کی ملکیت تھی جس سے گھروں کو پانی سپلائی کیا جاتا تھا اور گاؤں کے لوگوں کا انحصار اسی ٹینکی پر تھا۔ ٹینکی کی گرنے کی وجہ پر حکیم خان نے بتایا کہ بلاکس سے بنائی گئ اس ٹینکی کی بنیادیں پکی نہیں تھی شاید یہ وجہ ہو سکتی ہے۔

حکیم خان نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ قبائلی علاقوں میں زندگی کی بنیادی ضروریات جیسے صحت ، تعلیم ، پانی ، بجلی وغیرہ پر خصوصی توجہ دیں۔ قبائلی اضلاع کے لوگ پہلی ہی دہشتگردی غربت ٫ افلاس کے چکی میں پس چکے ہیں مزید ایسے سانحات قبائلی عوام برداشت کرنے کے قابل نہیں ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button