خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

‘میں عید کے کپڑوں اور جوتوں کے پیسے کسی مزدور بچے کو راشن کے لیے دوں گا’

نسرین
‘عید پرانے کپڑے پہن کر بھی منائی جا سکتی ہے اور کئی غریب مزدور بچے ایسے ہیں جو ہر سال عید پرانے کپڑوں میں گزارتے ہیں، اس مرتبہ عید سادگی سے مناوں گا اپنی عزت صحت اور زندگی سے بڑھ کر کچھ نہیں اگر ایک عید پر نئے کپڑے جوتے نا بھی پہنیں تو کیا فرق پڑتا ہے’

یہ کہنا تھا سرکاری ملازم محمد ر مضان کا، ٹی این این کے ساتھ عید کی شاپنگ کے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نےکہا کئی عیدیں آئے گی اور ہم منائیں گے اگر زندگی اور صحت ہی نا رہی تو لاکھوں کی رقم، کپڑے اور سازو سامان بیکار ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا میں لاکھوں مسلمان ایسے ہیں جو غربت کے ہاتھوں ہر عید پر نئے کپڑوں سے محروم رہتے ہیں وہ اگر  لاک ڈاون میں بازار جائے گا نئے کپڑوں ، جوتوں کے لیے پولیس کے ڈنڈے کھائے دکانوں کے آدھے شٹرز سے اندر جا کر شاپنگ کرے اور دکانداروں کو من مانی قیمتیں ادا کرے اپنی بے عزتی کرائے پولیس اور انتظامیہ ڈنڈے لیے انکے پیچھے بھاگے اور وہ آگے آگے بھاگے اور اپنا تماشا لگانے کے ساتھ ساتھ صحت اور زندگی کو بھی داوٗ پر لگائے تو بہتر نہیں کہ پچھلے سال کے عید کے کپڑے اور جوتے اس عید پر پہن لے اور یہ رقم کسی غریب کو دے دے تاکہ وہ اس لاک ڈاون میں اپنے گھر عید کا راشن لے جاسکیں۔
اس حوالے سے ایک نجی سکول کے نویں کلاس کے طالب علم فیضان نے کہا کہ لاک ڈاون میں باہر جا کر اور دھکے کھا کر عید کی خریداری کرنے سے بہتر ہے کہ عید پر پہلے پہنے ہوئے کپڑے دوبارہ پہن لے انتہائی سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹی این این سے گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے ابو کے سمجھانے پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ میں اپنے عید کے نئے سوٹ اور جوتوں کی رقم اپنی ہی عمر کے اس بچے کو دے دوں جو روزانہ بازار میں مزدوری کرنے اور چیزیں بیچنے آتا ہے اور اپنی عید کے راشن کے لیے پیسے جمع کرتا ہے لیکن اس مرتبہ لاک ڈائون کے باعث وہ اپنا عید کا رشن بھی خرید نہیں پا رہا۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہ اور اس کے گھر والے عید کی چھٹیوں میں بنا مزدوری کیے پیٹ بھر کر کھانا کھا لیں گے تو مجھے نئے کپڑوں سے زیادہ خوشی ملے گی۔
سرکاری ملازم عدنان علی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عید تو خوشی کا نام ہے اور دنیا میں کرونا کے باعث اتنے خراب حالات چل رہے ہیں لوگ بیماری اور تکلیف میں مبتلا ہیں۔ مخلوق خدا آکسیجن نا ہونے اور مناسب علاج نا ہعنے کے باعث مر رہے ہیں تو ایسے میں عید روایتی جوش و جذبے سے کیسے منائی جا سکتی ہے اس لیے عید کے حوالے سے میں نے خریداری تو کر لی ہے کپڑے بنا لیے ہیں تاہم زیادہ میل جول اور مہمان داری ، آنے جانے سے گریز کروں گا اور عید کی نماز کے بعد گھر پے ہی رہوں گا۔
کریم پورہ بازار میں عید کی خریداری کرنے والوں پر لاسٹک اور نالے بیچنے والے دس سالہ بچے محمد نے کہا کہ کہ میں روزانہ لاسٹک وزیرہ بیچنے بازار میں آتا ہوں انکو تو روزانہ روٹی دودھ اور دوسرا سودا لینا ہوتا ہے ، عید کے کپڑوں کا انکو پتا نہیں ہے امی لے لے گی۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے کبھی کپڑے نہیں خریدے امی بازار سے کپڑا خرید کر یا کسی سے لے کر جوڑا بنا دیتی ہے اس مرتبہ پیسے زیادہ نہیں مل رہے بازار بند ہے روزانہ تھوڑے لاسٹک اور نالے لوگ خرید رہے ہیں وہ نالے واپس گھر لے جاتا ہے پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا وہ سارے لاسٹک بیچ کر گھر جاتا تھا۔
یاد رہے حکومت نے 8سے16مئی تک مکمل لاک ڈاون لگا رکھا ہے جس کے باعث عید کی خریداری مارکیٹس اور بازاروں سے ممکن نہیں رہی ایسے میں شہریوں کی ایک بڑی تعداد نے آن لائن شاپنگ کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے اس حوالے سے سیکنڈ ایئرکے طالب علم شاہ زیب نے کہا کہ انہوں نے تو عید کے لیے نئے جوتے اور جوڑے آن لائن منگوا لیے ہیں اب بازار جانے اور دھکے کھانے سے بچ گیا ہے آن لائن شاپنگ مہنگی ضرور ہے لیکن آسان ہےسب گھر والوں نے آن لائن خریداری کی ہے۔
نجی ادارے میں کام کرنے والے ملازم جعفر علی نے کہا کہ بچے تو ناسمجھ ہیں میں ان کے لیے خریداری ضرور کروں گا اور کپڑے جوتے لوں گا لاک ڈاؤن میں بھی شاپنگ ہو سکتی ہے آدھی آدھی دکانیں کھلی ہیں دکاندار اپنی دکانوں کے سامے بیٹھے ہیں اور گاہکوں کو دکان کے اند سے خریداری کروا رہے ہیں میرے بچے چھوٹے ہیں وہ نا سمجھ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اگر خریداری نا کی تو و ہ عید کے دن کیا پہنیں گے۔

عید کی خریداری کے حوالے سے پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ کورونا ایس او پیز پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لئے مانیٹرنگ ڈیسک سے شہر بھر میں ڈرون کیمروں سے مانیٹرنگ شروع کردی ہے ڈرون کیمروں کی مدد سے اندرون شہر کے تنگ بازاروں اور شاہراہوں کو مانیٹر کیا جارہا ہے۔ڈرون کیمروں سے ایس او پیز کی خلاف ورزی نظر آنے پر متعلقہ پیٹرولنگ موبائل کو بروقت اطلاع دی جاتی ہے جبکہ جدید ٹیکنالوجی سے ہجوم کی بھی بآسانی مانیٹرنگ ہوتی ہے اور شہریوں کی آمدو رفت کو محدود کرنے کے لیے مختلف شاہراہوں کو بلاک بھی کیا جاتا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button