نامور شاعرہ اور صحافی زُبیدہ فردوس پچاس برس کی عمر میں انتقال کر گئیں
رفاقت اللہ رزڑوال
اردو ادب کی عہدساز شخصیت، نامور شاعرہ، صحافی اور سماجی کارکن زبیدہ فردوس زوبی پچاس سال کی عمر میں طویل علالت کے بعد انتقال کر گئیں، ان کی نماز جنازہ ہفتے کی رات پشاور کینٹ میں ادا کر دی گئی اور بعدازاں ان کے جسد خاکی کو سپردخاک کیا گیا۔
زبیدہ فردوس نے اردو ادب اور صحافت میں اس وقت قدم رکھا تھا جب پشتون خواتین میں ادب کا رجحان بہت کم تھا اور اسی طرح گزشتہ 40 سالوں سے سماجی مسائل، خواتین کے حقوق اور کمزور طبقے کو شعور دلانے کیلئے وہ اپنا قلم استعمال کرتی رہیں۔
ٹی این این کے ساتھ زبیدہ فردوس کی زندگی اور اُن کی ادبی خدمات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے خیبرپختونخواہ میں خواتین شعرا اور مصنفین کی تنظیم ‘خویندو ادبی لخکر’ (خال) کی چیئرمین اور معروف مصنفہ کلثوم زیب نے بتایا کہ وہ گزشتہ ایک ماہ سے شدید علیل تھیں لیکن حالیہ دنوں میں کورونا وباء کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار گئیں۔
کلثوم زیب بتاتی ہیں کہ وہ نہ صرف ایک معروف شاعرہ تھیں بلکہ وہ ایک بہترین صحافی بھی تھیں اور اردو زبان کے کئی اخبارات میں اُن کے آرٹیکلز اور کالمز زوبیات کے نام سے شائع ہوتے رہے۔
انہوں نے پنجاب کے ضلع بہالپور سے بی اے تک تعلیم حاصل کی تھی اور تقریباً 40 سال سے ادب کے شعبے سے تعلق رکھتی تھیں، وہ اردو زبان کے رسالے ماہنامہ ہفت رنگ شعبہ خواتین کی انچارج تھیں۔
کلثوم کے مطابق وہ سرکاری ٹیلی ویژن کے پروڈیوسر عالمزیب عامر (مرحوم) کی بہن تھیں، مرحومہ کے تین بیٹے اور ایک بیٹی تھی جن میں دو بیٹے تین ماہ قبل ایک روڈ حادثے میں جان بحق ہوئے جبکہ اب ورثا میں سے ایک بیٹا اور ایک بیٹی رہ گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ کئی بار پشاور پریس کلب کی نائب صدر بھی رہ چکی ہیں اور 2016 میں خواتین شعرا کی تنظٰم خویندو ادبی لخکر کے ساتھ سینئر نائب صدر کی حیثیت سے منسلک ہوئیں۔
کلثوم نے بتایا کہ اس طرح کی عہدساز شخصیات کسی معاشرے میں صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں، وہ ایک ایسی دوست سے محروم ہو گئیں جس کی وفات کی وجہ سے آج اردو ادب میں ایک ایسا خلا پیدا ہوا ہے جسے بمشکل ہی پُر کیا جا سکے گا۔
معروف ڈرامہ نگار، مصنف اور پشتو ٹیلی ویژن خیبرنیوز کے اینکر خالد خان نے بتایا کہ اُن کی نمازہ جنازہ میں سیاستدانوں، مضنفوں، شعرا اور علاقے کے دیگر افراد نے کثیر تعداد میں شرکت کی اور اُن کی ادبی خدمات کو زرین الفاظ میں یاد کیا۔
خالد خان کہتے ہیں کہ بنیادی طور پر مرحومہ کا تعلق ضلع مردان سے تھا، چارسدہ کے علاقہ پڑانگ میں اُن کی شادی ہوئی تھی، ”وہ نظم، نثر، شاعری او ادب کے ساتھ ایک بہترین صحافی بھی تھیں جن کی تصانیف ملک کے اردو اور انگریزی اخبارات میں شائع ہوتی رہی ہیں۔”
خالد کہتے ہیں، ”جس طرح ایک روایتی پشتون خاتون کا کردار ہوتا ہے وہی اُن کا بھی کردار تھا، بڑوں کی عزت، بچوں پر شفقت اور ہم عمر کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھتی تھیں۔”
کہتے ہیں کہ ادبی سرگرمیوں میں حصہ لینا اور خواتین کو شعوری طور پر مضبوط بنانا اُن کا شیوہ تھا۔ ان کے مطابق تقریباً دو ماہ قبل اُن کے دو بیٹے روڈ حادثے میں جاں بحق ہو گئے تھے اور اس شدید غم کی وجہ سے وہ بھی بیمار پڑ گئیں اور بالآخر اس دارفانی سے رخصت ہو گئیں۔
کلثوم زیب کے مطابق زبیدہ فردوس کی اردو شاعری کا ڈھیر سارا مواد موجود ہے لیکن کتاب چھاپنے کا ارمان مرحومہ اپنے دل میں لے گئیں اوراس کی ایک بڑی وجہ غربت تھی۔
کلثوم نے اُن کے تعریفی اسناد پر بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں بہترین کارکردگی اور ادبی خدمات پر گولڈ مڈل، سلور مڈل اور خوشحال خان ادبی ایوارڈ بھی مل چکے ہیں۔
زبیدہ فردوس کی وفات پر خیبرپختونخوا کی رائٹر ایسوسی ایشن نے بھی گہرے غم اور دکھ کا اظہار کیا ہے اور وزیراعلٰی خیبرپختونخوا سے مطالبہ کیا ہے کہ زبیدہ فردوس کی ادبی خدمات کے اعتراف میں خواتین کیلئے ڈگری کالج اور ایک لائبریری قائم کی جائے تاکہ خواتین شعرا، ادباء اور مصنفین کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔