خیبرپختونخوا حکومت کا ”سورہ” رسم کے خلاف قانون سازی کا فیصلہ
خیبر پختونخوا حکومت نے سورہ رسم کے خلاف قانون سازی کا فیصلہ کر لیا۔
اس حوالے سے صوبائی وزیر شوکت یوسف زئی کا کہنا تھا کہ سورہ رسم کا معاملہ انتہائی حساس ہے اسے روکنے کے لیے قانون سازی ہونی چاہیے۔
شوکت یوسفزئی کا کہنا تھا کہ کسی کے کیے کی سزا کسی دوسرے کو نہیں دینی چاہیے، آج کی عورت پڑھی لکھی اور باشعور ہے، ایسا قانون نہیں ہونا چاہیے کہ عورت کی زبردستی شادی کر دی جائے، ایسی رسم کو روکنے کیلئے قانون سازی کی اشد ضرورت ہے، اس حوالے سے پولیس نے متعدد بار کارروائی کی ہے لیکن سورہ کے ملزمان اس لیے بچ جاتے ہیں کہ قانون میں سقم ہے۔
واضح رہے کہ خیبر پختونخوا کے دور افتادہ علاقوں میں آج بھی قبائلی سسٹم رائج ہے اور جب دو فریقین کے درمیان معاملہ قتل ہونے تک پہنچ جائے تو قبائلی طریقے کے مطابق دونوں فریقین میں صلح کرائی جاتی ہے جس کے تحت مقتول فریق کے لوگ قاتل سے صلح میں لڑکی، بہن یا بھتیجی مانگتے ہیں، کئی بار ایک ہی وقت میں دو لڑکیوں کے رشتے مانگے جاتے ہیں، اس رسم کو سورہ کہا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ رواں برس 4 اپریل کو بھی سوات تحصیل بحرین مانکیال کے علاقہ رامیٹ میں دو لڑکیوں کو سورہ میں دینے والے ملزمان کو پولیس نے گرفتار کر کے لڑکیوں کو بازیاب کر لیا تھا۔
قبل ازیں رواں برس 30 جنوری کو سوات ہی کے علاقے خواز خیلہ میں 6 سالہ بچی کو سورہ میں دینے کی کوشش ناکام ہو گئی تھی۔ پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے معاملے میں ملوث 14 افراد کو گرفتار کر لیا تھا۔