”10 سال بعد لاشوں کی باقیات ملیں تو ہمارا دل مطمئن ہو گیا”
سی جے طارق عزیز
شانگلہ کے 16 مزدوروں کی لاشیں اپنے آبائی علاقے پہنچا دی گئیں جہاں ضلعی ہیڈکوارٹر الپوری میں ان کا اجتماعی جنازہ پڑھایا گیا۔
یاد رہے کہ شانگلہ کے 16 مزدور ستنبر 2011 کو درہ آدم خیل کی ایک کوئلہ کان سے اغواء کئے گئے تھے جن کے بارے میں تقریباً 10 سال تک کوئی معلومات نہیں تھیں، گزشتہ روز ان کی لاشوں کے بارے میں مبینہ طور پر ایک مقامی شخص نے اطلاع دی جس کے بعد ریسکیو اہلکاروں نے مشترکہ طور پر آپریشن کر کے لاشیں برآمد کر لی۔
قتل ہونے والے مزدوروں میں رانیال کے علاقے "باسیا” نامی گاوں کے ایک ہی خاندان کے 5 مزدور بھی شامل تھے، 5 مزدوروں میں سے 3 سگے بھائی، ایک ان کا چچا اور ایک چچازاد بھائی شامل ہے۔
ہفتے کی صبح ان کے جنازے ادا کرنے کے بعد ان کی لاشیں گاؤں پہنچا دی گئیں تو مقامی لوگوں نے قبریں تقریباً تیار کر رکھی تھیں، تین بھائیوں کی ایک ساتھ قبریں دیکھ کر لوگوں کا غم دگنا ہو گیا۔
فاتحہ میں موجود ایک نوجوان سردار نے بتایا کہ ان غریب مزدوروں کی حالت زندگی اور موت دونوں کسی عذاب سے کم نہیں، ”تین بھائیوں کی قبریں ایک ساتھ دیکھ کر مجھے اس نظام سے نفرت ہونے لگی ہے۔”
سردار واجد نے بتایا کہ شانگلہ کی قوم کو اس حوالے سے ایک مشترکہ لائحہ عمل اپنانا چاہئے تھا اور ان قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے تک شانگلہ کے عوام کو خاموش نہیں ہونا چاہئے تھا تاکہ آئندہ اگر کوئی ظالم اس قسم کی حرکت کا ارادہ کرے تو اسے اپنا انجام بھی ضرور معلوم ہو۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے بات چیت میں محولہ بالا ایک ہی خاندان کے پانچ مزدوروں کے رشتہ دار نور رحمان کا کہنا تھا کہ آج ان کا غم ایک طرح سے ختم ہو گیا، ”پچھلے 10 سال سے ہم اس غم میں ڈوبے ہوئے تھے، ہمیں اپنے چچا اور بھائیوں کے زندہ اور مردہ ہونے کی کوئی خبر نہیں تھی لیکن آج ہمارا دل مطمئن ہو گیا کہ ان کی باقیات ان قبروں میں دفن ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ جس وقت یہ لوگ غائب ہوئے تو معلومات کے لئے ہم نے بہت کوششیں کیں، تقریباً 46 لاکھ روپے خرچ کئے گئے، اس غم کے باوجود مختلف محکموں میں بیھٹے ظالموں نے ہم سے لاکھوں روپے لوٹ لئے لیکن کسی نے کوئی مدد نہیں کی۔
نوررحمان نے مزید کہا کہ ہم پاکستان کے مختلف علاقوں سمیت افغانستان تک مختلف عاملوں کے پاس بھی گئے، وہ حساب لگا کر ہم سے کہتے رہے کہ آپ کے لوگ زندہ ہیں لیکن اس کے باوجود بھی کوئی معلومات نہ ہو سکیں۔
انہوں نے حکومت سے اعلی عدالتی کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ ان کے قاتل معلوم ہو سکیں اور انہیں سخت سے سخت سزا دی جا سکے۔
نوررحمان نے مزید بتایا کہ یہ سارے شادی شدہ تھے اور ان کے بچے بھی تھے، اب تک ہمارا غم ڈبل تھا کیونکہ ان کی بیویاں بھی اپنے خاوندوں کے آنے کی منتظر تھیں۔
کیا اس المناک حادثے کے باوجود بھی ان کے خاندان کے لوگ کوئلہ کان میں مزدوری کر رہے ہیں؟
اس کے جواب میں نور رحمان نے ہاں میں سر ہلایا اور بتایا کہ شانگلہ میں ہمارے ساتھ دوسرا کوئی راستہ نہیں، ”یہ کام اگرچہ سخت بھی ہے اور خطرات سے بھرا ہوا بھی لیکن پھر بھی مجبوراً کوئلہ کی مزدوری کرنا پڑ رہی ہے۔
اس موقع پر شہید ہونے والے سردار حسین کے استاد افضل خاموش نے بتایا کہ "دو ہزار دس میں غربت کی وجہ سے جب سردار حسین کم عمری میں کوئلہ کان کی مزدوری کے لیے روانہ ہوا تو اس کے والد نے مجھے بتایا کہ سردار حسین سکول چھوڑ کر جا رہا ہے کیونکہ اس کے بھائیوں نے اسے درہ ادم خیل بلایا ہے۔”
ان کا مزید کہنا تھا، ”میں نے بحیثیت اک استاد کے سردار حسین کو، جو میرے ساتھ پانچویں کا طالب علم تھا، بتایا کہ بیٹا آپ کی عمر مزدوری کی نہیں ہے لیکن اس نے کہا کہ سر غربت مجھے مزید تعلیم کی اجازت نہیں دیتی اور پھر درہ ادم خیل چلا گیا۔”
افضل خاموش نے بتایا کہ آج اس کی لاش دیکھ کر میں اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ سکا، اس کے والد سے گلے ملا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔