خیبر پختونخوا

شانگلہ کے 16 مزدور 2011 میں اغواء 2021 میں قتل

 

سٹیزن جرنلسٹ طارق عزیز

2011 میں اغواء کےگئے شانگلہ کے 16 مزدوروں کی لاشیں برآمد ، زرائع کے مطابق شانگلہ کے 16 مزدور جو 10 سال قبل لیز تنازعے کے دوران درہ آدم خیل سے اغواء کئے گئے تھے، آج انڈس ہائی وے پر تور چپر (جواکی) کے علاقے میں پولیس اور ریسکیو اہلکاروں کے مشترکہ آپریشن کے دوران ان کی لاشیں برآمد کی گئیں۔

کوئلہ کان مزدوروں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی مقامی تنظیم "سموا” کے ترجمان سرفراز خان کے مطابق مزدوروں کی لاشوں کو آبائی علاقے شانگلہ منتقل کیا جائے گا اور اجتماعی جنازہ ادا کیا جائے گا۔

سموا کی ٹیم پاکستان تحریک انصاف کے ڈویژنل سنئیر نائب صدر حاجی سدید الرحمن، ضلعی صدر وقار احمد خان، سابق ممبر صوبائی اسمبلی محمد رشاد خان موقع پر موجود ہیں جبکہ انجینئر امیر مقام بھی پشاور سے کوھاٹ کے لئے روانہ چکے۔

ٹی این این کی جانب سے رابطہ پر سموا کے عہدیدار عابد یار نے بتایا کہ کان کنوں کے حالات انتہائی ابتر ہیں اور ان کے ساتھ  جاری سلوک غیرانسانی ہے۔

عابدیار کے مطابق کسی بھی سرکاری محکمے کے کان کنوں کے اموات اور معذوری کے متعلق  اعداد وشمار موجود نہیں، انہوں نے ذاتی حیثیت سے 2018 کے بعد کان کنوں کی اموات اور معذوروں کا ڈیٹا اکٹھا کیا ہے جس کے مطابق  2018 میں 174 کان کنوں مختلف حادثات میں وفات پا گئے جبکہ 2019 میں مرنے والوں کی تعداد 194 اور 2020 میں 204 رہی۔

سموا کے مطابق رواں سال کے تین مہینوں میں یہ تعداد پچاس 50 تک جا پہنچی ہے، کوئلہ کان میں نہ صرف ان حادثات مین اموات واقع ہوتی ہیں بلکہ بہت سارے لوگ مستقل طور پر معذور ہو جاتے ہیں۔

سموا کے اعداد وشمار کے مطابق تقریباً 5500 لوگ معذور ہو چکے ہیں، اس کے علاوہ پندرہ ہزار 15000 بچے یتیم ہوئے جن کی عمریں اٹھارہ سال سے کم ہیں، جبکہ تقریباً سات ہزار عورتیں بیوہ بن چکی ہیں۔

یاد رہے کہ یہ اعدادوشمار سموا کے عہدیدار عابد یار نے اپنی ذاتی حیثیت میں جمع کئے ہیں اور مقامی لوگوں کے مطابق یہ تعداد اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button