کیا 3 سالہ حریم فاطمہ کا قاتل بے نقاب ہونے والا ہے؟
ریاض خٹک
صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر کوہاٹ میں گزشتہ دنوں قتل ہونے والی ساڑھے تین سالہ حریم فاطمہ، جس کا تعلق ضلع کرک کے گاؤں بابل حیل سے تھا، کے کیس میں پولیس کا کہنا ہے کہ انھوں نے تفتیش مکمل کر لی ہے اور آئندہ چوبیس گھنٹے میں اسے حکام کے حوالے کرنے کے ساتھ ساتھ میڈیا اور عوام کے ساتھ بھی شریک کیا جائے گا۔ حریم فاطمہ کا حاندان ملازمت کے سلسلے میں کوہاٹ کے علاقے خٹک کالونی میں رہائش پذیر ہے۔
یاد رہے کہ حریم فاطمہ کے خاندان نے بچی کی گمشدگی کی رپورٹ 24 مارچ کو کوہاٹ کے تھانہ محمد ریاض شہید میں درج کرائی تھی جبکہ 25 مارچ کو بابری کاٹن کالونی کے پاس ایک گندے نالے سے اس کی نعش برآمد ہوئی تھی۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے ایس ایچ او تھانہ محمد ریاض شہید کا کہنا ہے کہ اس کیس میں 159 افراد کو شامل تفتیش کیا گیا ہے اور ابھی تفتیش آخری مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔
ایس ایچ او کے مطابق بیانات قلم بند کرنے کے ساتھ ساھ تمام سی سی ٹی وی فوٹیجز بھی حاصل کر لی گئی ہیں اور بہت جلد کیس کی تمام تفصیلات کو منظر عام پر لایا جائے گا۔
ایس ایچ او کے مطابق مزید تفتیش کے لئے قبر کشائی کے ساتھ ساتھ مزید فرانزک ٹیسٹ بھی کئے جائیں گے تاکہ کسی بھی نوعیت کی کوتاہی نہ برتی جائے۔
دوسری جانب حریم فاطمہ کے دادا محمد فرہاد کا کہنا ہے کہ ان کا خاندان کوہاٹ میں تعلیم کے حصول کے سلسلے میں رہائش پذیر تھا اور ان کی کسی سے بھی کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے، تعلیم یافتہ خاندان ہونے کی وجہ سے سب حاندان والے سرکاری ملازمت کرتے ہیں۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے حریم فاطمہ کے والد نوید انور نے بتایا کہ وہ ابھی تک پولیس کے کردار سے مطمئن نہیں ہیں کیونکہ پولیس نے پہلے بتایا کہ وہ ملزمان کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں اب وہ حیلے بہانوں سے کام لے رہے ہیں۔
ہسپتال عملے کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ان کے بار بار اصرار کے بعد ہی پوسٹ مارٹم کیا گیا، بچی کی نعش کو دیکھنے کے بعد انھیں ایسا محسوس ہوا کہ اسے گلا دبا کر قتل کیا گیا اور اس کے بعد پانی میں پھینکا گیا۔
یاد رہے کہ حریم فاطمہ کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا کے دور افتادہ ضلع کرک سے ہے، حریم فاطمہ کی گمشدگی اور بعد میں قتل پر کوہاٹ اور کرک میں بڑی تعداد میں لوگ احتجاج کے لئے باہر نکل آئے لیکن حکومتی نمائندوں وقاقی وزیر شہریار أفریدی اور کوہاٹ ڈویژن کی انتظامیہ کے اصرار پر احتجاج ختم کر کے بچی کو اپنے آبائی علاقے میں دفنا دیا گیا۔
یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان میں کم سن بچوں اور بچیوں کی گمشدگی اور بعد میں ریپ کے بعد قتل کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ لاھور سے تعلق رکھنے والی زینب کے دلخراش واقعے کے بعد حکومت پاکستان نے اس حوالے سے زینب الرٹ بل بھی منظور کیا جس کے تحت کم سن بچوں کے ساتھ زیادتی اور بعد میں قتل میں ملوث افراد کے لئے سزائے موت کا قانون بھی پاس کیا گیا ہے تاہم ایسے واقعات میں کمی واقع نہیں ہو رہی ہے۔
کرک کے عوام کا حکومت سے پُر زور مطالبہ ہے کہ انھیں فوری طور پر انصاف فراہم کیا جائے۔
اس سلسلے میں کرک کے عوام نے ملزمان کی گرفتاری کے لئے اختجاجی مظاہرے بھی کئے لیکن تاحال ملزموں کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی جا سکی۔
ضلع کرک کی علاقائی تنظیم خٹک اتحاد کے جنرل سیکرٹری نور محمد خٹک، سابق ممبر قومی اسمبلی مولانا شاہ عبدالعزیز نے دھمکی دی ھے کہ پولیس روایتی تفشیش سے ہٹ کر جدید انداز میں ملزمان کی گرفتاری کے لئے لائحہ عمل طے کرے بصورت دیگر وہ مجبور ھو کر اختجاج کا دائرہ اسلام آباد پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ أف پاکستان تک لے جائیں گے اور ہر صورت میں غمزدہ خاندان کو انصاف دلوا کر رہیں گے۔