لنڈی کوتل بازار میں آوارہ کتوں کو زہر سے مارنے کا سلسلہ شروع
محراب شاہ آفریدی
ضلع خیبر لنڈی کوتل میں ٹی ایم اے نے آوارہ کتوں کو زہر سے مارنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ ٹی ایم اے اہلکاروں نے خوراکی اشیاء میں زہر دے کر بیشتر کتوں کو مار ڈالا۔
ٹی ایم او شہباز خان نے ٹی این این کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ان کتوں کو خوراکی اشیاء میں زہر دے کر مارا گیا جن کی تعداد 14 تھی، ان آوارہ کتوں کی وجہ سے لنڈی کوتل بازار میں تاجروں, دکانداروں اور عام لوگوں کا بازار میں چلنا مشکل ہو گیا تھا۔ ٹی ایم او تحصیل لنڈی کوتل شہباز خان نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر خیبر منصور ارشد کی ہدایات پر ان کتوں کو خوارکی اشیاء میں زہر دے کر ختم کر دیا گیا تاکہ انسانوں کو ان کتوں سے نقصان نہ پہنچ سکے۔
ٹی ایم او لنڈی کوتل شہباز خان نے بتایا کہ جو لوگ گھروں سے کتوں کو اٹھا کر لنڈی کوتل بازار میں چھوڑینگے ایسے افراد کو اگر دیکھا گیا تو ان کے خلاف بھی ایکشن لیا جائے گا انہوں نے کہا کہ ان آوارہ کتوں سے لنڈی کوتل بازار میں لوگ تنگ آگئے تھے اور جن غریب افراد کو بعض باؤلے کتے کاٹ دیتے ہیں ان کے علاج پر کافی خرچہ آتا ہے اور ایک بچہ حال ہی میں اس سے مر بھی گیا تھا ان کتوں کو مارنے کے لئے پشاور سے زہر لایا گیا تھا جس پر کافی خرچہ آیا۔
وقار آفریدی نے ٹی این این کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ لنڈی کوتل بازار گزشتہ کئی مہینوں سے آوارہ کتوں کی لپیٹ میں تھا جنہوں نے بازار میں کئی افراد کو کاٹ دیا تھا۔ وقار نے مزید بتایا کہ کہ علاقے کے لوگ جب کتوں کا گھروں میں دیکھ بھال نہیں کر سکتے تو وہ کتوں کو بوریوں میں بند کرکے ہسپتال چوک اور لنڈی کوتل میں چھوڑ دیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ لنڈی کوتل بازار اور ہسپتال میں آوارہ کتوں کی تعداد بڑھنے لگی ہے اگر کتوں کو مار نہیں دیا جاتا تو وہ پھر لوگوں کو نقصان پہنچاتے۔
جانوروں کے حقوق پر کام کرنے والی زیبا محسود نے ٹی این این کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ٹی ایم اے کے زیر نگرانی لنڈی کوتل بازار میں آوارہ کتوں کو خوراکی اشیاء میں زہر دے کر مارنا جانوروں کے حقوق کی خلاف ورزی ہے کیونکہ ان آوارہ کتوں کو خصی کرنا چاہئے تھا نا کہ کھلے عام بازار میں لوگوں کے سامنے اس طرح زہر دینے سے اور دوسرا یہ کہ اس طرح کے کتوں کو مارنے سے مسئلہ ختم نہیں کیا جا سکتا بلکہ ہر چھ ماہ بعد یہ بچے لائیں گے اور ان کی نسل میں پھر اضافہ ہوگا تو صحیح طریقہ انہیں خصی کرنا ہے تاکہ آن کی نسل میں اضافہ نہ ہو۔