چار سال کی عمر میں پہلا گانا گانے والے کوہاٹ کے چاہت پپو سے ملیے
عائشہ یوسفزئی
خیبر پختونخوا کے شہر کوہاٹ سے تعلق رکھنے والا کم عمرترین پشتو گلوکار موسیقی کے میدان میں اپنا ایک منفرد مقام بنانے کا خواہاں ہے۔
15 سالہ طالبعلم چاہت پپو کا کہنا ہے کہ انہوں نے بہت چھوٹی عمر سے گلوکاری کا آغاز کیا ‘جب میں نے اپنا پہلا گانا گایا تو اس وقت میری عمر چار سال تھی اس کام میں میرے والد جو کہ سرکاری ملازم ہے اور بھائی جو ایک اچھے موسیقار ہے ان دونوں نے کافی مدد کی ہے گھر والوں کی سپورٹ کے بدولت ہی مجھ میں آگے بڑھنے کی لگن پیداہوئی اوراس سے ہی انسان آگے جاتا ہے، والدین کا خواب ہوتا ہے کہ انکی اولاد کچھ کر دکھائے والدین اولاد کا اثاثہ ہوتے ہیں جوکہ ہر مشکل میں اولاد کے لئے ڈھال بن جاتے ہیں’
چاہت پپو کا کہنا ہے ‘میں بچپن سے ہی غزل کے استاد خیال محمد، ماسٹر حیدر علی اور ہارون باچا کی طرح مو سیقی کے میدان میں نام کمانا چاہتا ہوں جس کیلئے پہلے میں نے اپنے استاد آصف جان سے تھوڑی بہت موسیقی سیکھی اس کے بعد میں نے دوسرے پشتو موسیقی کے استاد گلنوازسے اس سلسلےمیں استفادہ کیا اور آجکل پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک اچھے موسیقار سے مستفید ہو رہا ہوں’
انہوں نے بتایا کہ اپنے شوق کو پورا کرنے کی لئے دن رات ایک کر کے محنت کررہا ہے کئی انعامات بھی ملے ہیں لیکن اس کے سا تھ اپنی تعلیم پر بھی توجہ دے رہا ہے کچھ وقت کے لیے انکو پڑھائی کو چھوڑنا بھی پڑا اپنے کام کی مصروفیات کی وجہ سے لیکن ایک مرتبہ پھر انہوں نے موسیقی کے ساتھ اپنی تعلیم کو بھی جاری رکھا ہے اور پرائیویت تعلیم حاصل کرنا شروع کیا کیونکہ تعلیم کے زیور سے آراستہ انسان ہی معاشرے میں اپنا دفاع ٹھیک طریقے سے کرسکتا ہے اوراپنے مقصد کے حصول تک پہنچ سکتا ہے۔ چاہت پپو اس وقت آٹھویں جماعت کا طالبعلم ہے۔
چاہت پپو کے مطابق انہوں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے توتب سے ہی موسیقی کی طرف رجحان رہا ہے جس کی وجہ سے وہ کھیل کود سے دور رہا ہے لیکن کھیلوں کی سرگرمیاں اچھی لگتی ہے اور انکا پسندیدہ کھیل کرکٹ ہے جو شوق سے دیکھتے ہیں۔
چاہت پپو کا کہنا ہے کہ موسیقی کے سلسلے میں ممالک جاچکا ہے جہاں اپنے فن کا مظاہرہ کر چکا ہے اور شائقین سے داد بھی وصول کی۔ 15 سالہ گلوکار کا کہنا ہے کہ فینزسے بہت پیار ملتا ہے جس سے انکو بہت حوصلہ ملتا ہے۔
چاہت پپو کا کہنا ہے کہ اکثر ایسے جوان ملتے ہیں جن میں گانے کا ٹیلنٹ ہوتا ہے تو ان کا ماننا ہے کہ انکو اپنی زبان کی خدمت کرنی چاہیئے۔
‘کورونا وائرس کی وجہ سے جہاں دوسرے شعبوں کے لوگ متاثرہوئے ہیں تووہاں ہمارا روزگار بھی بہت متاثر ہوا ہے حکومت کی طرف سے تقاریب پر پابندیاں عائد کردی گئی ہیں کورونا سے فن کار برادری بہت متاثر ہوئی ہیں دوسرا مسلہ صحت کا ہے کہ جب بھی کوئی فنکار بیمار ہوتا ہے تو حکومت کی طرف سے کوئی خاطر خواہ امداد نہیں ہوتی اس کے علاوہ ہمارے لئے موسیقی کی کوئی اکیڈمی نہیں ہے کہ جہاں پر ہمارا فن مزید پروان چڑھ سکے تو اس سلسلے میں حکومت کو اقدامات کرنے کی ضرورت ہے’ چاہت پپو نے بتایا۔
نام کے حوالے سے چاہت پپو نےبتایا کہ ان کا نام پہلے کنہام رکھا گیا پھربعد میں گھر والو ں نے اسد رکھا لیکن وہ بہت زیادہ بیمار رہنے لگا جسکی وجہ سے انکے والد انکو چاہت پپو کے نام سے بلانے لگے اور یوں ان نام چاہت پپو پڑگیا۔