خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

‘مجھے اس بات کی جلدی تھی کہ میں خود اپنے پیروں پر کھڑی ہو جاؤں’

خالدہ نیاز

” وکالت کے پیشے میں گئی تو پریکٹس کا دوسرا دن تھا کہ ایک لڑکی کے ریپ کے سلسلے میں ہونے والے احتجاج میں حصہ لیا اور دوسرے وکلا کے ساتھ روڈ پر نکل آئی۔ اس دوران کسی جاننے والے نے میرے والدین کو بتا دیا کہ آپ لوگوں کی بیٹی وکالت کی جگہ سڑکوں پر لڑکوں کے ساتھ احتجاج کر رہی ہے”

”والدین نے مجھے اس وقت منع کرنے کی کوشش کی لیکن مجھے اپنی حدود معلوم تھیں اور ساتھ میں منزل بھی، وہ دن اور آج کا دن میں آگے بڑھتی چلی گئی اور آج خیبر پختونخوا کے صوبائی محتسب برائے انسداد ہراسانی کے عہدے پر پہنچ گئی ہوں۔”

ٹی این این کے ساتھ ایک خصوصی نشست میں صوبائی محتسب برائے انسداد ہراسانی رخشندہ ناز نے اپنی آپ بیتی سناتے ہوئے کہا، "15 سال کی عمر میں میں اس بات پر کھانا کھانے سے انکار کیا کہ مجھے بورڈنگ سکول میں داخلہ لینا ہے کیونکہ اس وقت گھر اور علاقے میں لوگوں کی ذہنیت ایسی تھی کہ مجھے لگتا تھا میں کبھی اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہو پاؤں گی اور مجھے اس بات کی جلدی تھی کہ میں اپنے پیروں پر کھڑی ہو جاؤں۔”

انہوں نے کہا کہ ان کی ضد اور بلند حوصلے کے سامنے گھر والے بھی مجبور ہوگئے جس کے بعد وہ فرسٹ ائیر میں بورڈنگ سکول چلی گئیں۔

آپ کی بیٹی تو پہلے دن سے سڑک پر لڑکوں کے ساتھ احتجاج کر رہی ہے

رخشندہ ناز کے مطابق ان کی پیدائش بلوچستان میں ہوئی اور ابتدائی تعلیم بھی وہی سے حاصل کی۔ پنجاب سے گریجویشن کی اور خیبر پختونخوا میں لاء کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد انگلینڈ سے ایل ایل ایم اور ماسٹرز کی ڈگری لی۔ 2019 میں انہیں خیبر پختونخوا کی صوبائی محتسب برائے ہراسانی مقرر کیا گیا۔

یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے یہیں سے اپنے کرئیر کا آغاز بھی کیا۔ ‘میں انسانی حقوق کے کیسز کو دیکھتی تھی اور اس کے علاوہ میں ٹریننگز میں بھی رہی ہوں اور پاکستان بھر میں چاہے وہ سندھ ہو بلوچستان ہو پنجاب ہو یا خیبر پختوخوا، ان تمام صوبوں میں، میں نے کام کیا ہے، تو ایک لحاظ سے میں اپنے آپ کو پاکستان کہتی ہوں۔’

اپنے خاندان والوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کے 12 بہن بھائی ہیں جن میں گیارہواں نمبر ان کا ہے۔

رخشندہ ناز اپنے خاندان کی پہلی خاتون وکیل ہیں۔ ‘کورٹ میں میرا دوسرا دن تھا، وینا حیات کا کراچی میں واقعہ ہوا تھا، یہ ایک ریپ کیس تھا، پوری بار نے احتجاج کیا تھا کہ وینا حیات کا کیس سنا جائے، تو اس میں پہلے دن ڈسٹرکٹ بار نے جو احتجاج کیا تو میں ان کے ساتھ روڈ پر آ گئی، میرے جاننے والوں نے میرے والدین کو بتا دیا کہ آپ کی بیٹی تو پہلے دن کورٹ گئی اور سڑک پر لڑکوں کے ساتھ احتجاج کر رہی ہے لیکن میں آگے بڑھتی گئی۔’ رخشندہ ناز نے کہا۔

انہوں نے کہا کہ زمانہ طالب علمی سے سرگرم عمل رہیں، طلباء تنظیموں کے ساتھ کافی متحرک تھیں، پھر عراق جنگ کے دوران لاء کالج میں ان کا پہلا سال تھا، ان کے استاد ڈاکٹر فقیر حسین نے جب کہا کہ ہمیں عراق پر حملے کیخلاف کچھ کرنا چاہیے تو ہم نے امن واک کیا، اور میں نے ٹیچرز کے ہمراہ بینر لیا اور مختلف ڈیپارٹمنٹس گئی، طلباء اور اساتذہ کو نکالا اور روڈ پر امن کیلئے واک کیا۔’

شمالی اور جنوبی وزیرستان میں آپریشن کے بعد خود خواتین سے ملی

ان کا کہنا ہے کہنا ہے کہ جس وقت وہ یونیورسٹی میں پڑھ رہی تھیں اس وقت یونیورسٹی میں غیرنصابی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر تھیں اس کے لیے بھی کام کیا اور خود بھی ان سرگرمیوں میں حصہ لیا، انہوں نے ہمیشہ صنفی تفریق کو چیلنج کیا اور خواتین کے مساوی حقوق کیلئے کھڑی رہیں چاہے گھر میں ہو یا گھر کے باہر۔

رخشندہ ناز کا کہنا ہے کہ انہوں نے گھریلو تشدد ایکٹ کے لیے بھی کافی کام کیا، آج سے 22 سال پہلے وہ جس ادارے کے ساتھ منسلک تھیں انہوں نے لوگوں کو جمع کیا اور میں نے قرار داد جمع کروائی کہ گھریلو تشدد ایکٹ ہونا چاہیے، عورتوں کیلئے بلدیاتی نظام میں جو 33 فیصد کوٹہ آیا اس کی قرار داد بھی صوبائی اسمبلی سے پاس کروائی، مختصر یہ کہ قانون بنانا ہو یا قانون کو ریویو کرنا ہو (نظرثانی) ان کا رول یا تو وکیل کی شکل میں رہا یا ایکٹویسٹ کی شکل میں۔

‘2008 میں جب سوات میں آپریشن ہوا، اور 2015 میں جب جنوبی اور شمالی وزیرستان میں آپریشن ہوئے تو میں نے وہاں خود جا کر خواتین کی ٹیسٹمنی جمع کی، ذاتی طور پرخواتین سے ملی، اس بنیاد پر ایک رپورٹ بھی شائع ہو چکی ہے، اس کے علاوہ 2008 کی دہشتگردی میں اس وقت میں نے خواتین کے مسائل سنے اور ایک رپورٹ شائع کروائی کہ مذہبی انتہا پسندی خواتین پر کیسے اثرانداز ہو رہی ہے۔’ رخشندہ ناز نے بتایا۔

انہوں نے کہا کہ انہوں نے کام بہت کیا ہے لیکن جب کبھی ایوارڈز کیلئے نامزد ہوئی ہیں تو خیبر پختونخوا سے ہمیشہ یہ سوال اٹھا کہ ان کا تعلق یہاں سے نہیں تو یہ اہل نہیں ہیں حالانکہ میں نے زیادہ کام یہیں پر کیا ہے۔

23 سال بعد میرے کام کو حکومت نے وفاقی سطح پر تسلیم کیا

ان کا کہنا ہے کہ 2017 میں صدارتی ایوارڈ ملا، انسانی حقوق کے عالمی دن کے حوالے سے ضم اضلاع میں کام کرنے پر، اس وقت بھی ان کی خیبر پختونخوا اور فاٹا دونوں کیلئے نامزدگی ہوئی تھی لیکن خیبر پختونخوا میں یہ کہا گیا کہ ان کا ڈومیسائل خیبر پختونخوا کا نہیں ہے، فاٹا کی ممبر نے کہا کہ ہمیں پتہ ہے انہوں نے فاٹا میں کام کیا ہے، تو اس وجہ سے 23 سال بعد میرے کام کو حکومت نے وفاقی سطح پر تسلیم کیا، جب حکومت نے وفاقی سطح پر تسلیم کیا تو اگلے سال مجھے صوبائی حکومت نے خیبر پختونخوا اور فاٹا کی ایکنولیجمنٹ دی، اس کے علاوہ ان کو قائد اعظم میلینئم ایوارڈ بھی ملا ہے۔

رخشندہ ناز نے خواتین کے لیے کئی ادارے قائم کئے جہاں نہ صرف خواتین اور بچوں کو قانونی مدد فراہم کی جا رہی ہے بلکہ ان کو رہائش بھی مل رہی ہے۔ رخشندہ ناز کا کہنا ہے کہ انہوں نے اقلیتی برادری اور افغان خواتین (مہاجر) کیلئے بھی کام کیا کہ ان کو کیسے بااختیار بنایا جائے۔

ہندوستان کے حامد کی مدد کیوں کی؟

رخشندہ ناز نے نہ صرف اپنے ملک کے لوگوں کی خدمت کی بلکہ ہندوستان کے کئی لوگوں کی بھی مدد کی۔ ‘حامد بغیر ویزے کے پاکستان آیا تھا فیس بک پر کسی سے اس کی دوستی ہوئی تھی، میں نے اس کی مدد اس لیے کی کیونکہ پاکستان اور ہندوستان میں جب دوسرے ممالک کے لوگ غلطی سے داخل ہو جاتے ہیں تو ان کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس سے پہلے 1999 میں اشوک کمار بھی آیا تھا، تین بچوں کے ہمراہ غلطی سے سرحد کراس کی تھی اس نے، اشوک کمار قبائلی اضلاع میں گرفتار ہوا تھا اور حامد کی بھی گرفتاری وہاں سے ہوئی تھی’ رخشندہ ناز نے بتایا۔

سیکیورٹی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بہت دفعہ لوگوں نے دھمکی دی ہے، آج کل تو اوپر کورٹس کی دھمکی دیتے ہیں لیکن میں نے ایسا وقت گزارا ہے کہ میں بنیادی طور پر نہیں چاہتی کہ میں شور مچاؤں، پولیس اور میرے دوست جانتے ہیں کہ میں کن حالات سے گزری ہوں لیکن میں نے عوامی سطح پر اس کا ذکر نہیں کیا، مجھے دوستوں کی کافی سپورٹ حاصل ہے۔’ صوبائی محتسب نے کہا۔

آخر میں انہوں نے کہا کہ خواتین کیلئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ اپنی صلاحیت کو سمجھیں، خواتین جب تک خواتین کو سپورٹ نہیں کریں گی، ایک دوسرے کی طاقت نہیں بنیں گی، عورتوں کے حالات نہیں بدلیں گے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button