یہ لڑکی ایک دن ملک کی واحد خاتون بیوروچیف ہوگی، کسی نے سوچا بھی نہیں تھا
خالدہ نیاز
خیبرپختونخوا میں خواتین علاقائی رسم و رواج اور گھر کی طرف سے اجازت نہ ملنے کی وجہ سے عملی صحافت میں نہیں آتی لیکن کچھ خواتین ان سب چیزوں کو بالائے طاق رکھ کراپنی محنت اور لگن سے نہ صرف عملی صحافت میں قدم رکھتی ہے بلکہ اس میں اپنا ایک خاص مقام بنالیتی ہیں۔ انہیں باہمت خواتین صحافیوں میں سے ایک فرزانہ علی بھی ہیں جن کو خیبرپختونخوا کی پہلی خاتون بیورو چیف ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
فرزانہ علی کا تعلق صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے، انہوں نے ابتدائی تعلیم ڈیرہ اسماعیل خان سے ہی حاصل کی ہے جبکہ کچھ وقت ضلع کرم میں بھی گزارا ہے تو میٹرک تک کچھ تعلیم ضلع کرم سے بھی حاصل کی۔
فرزانہ علی نے جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے اور عملی صحافت کا آغاز اکتوبر 1997 سے مشرق اخبار سے کیا۔
ٹی این این کے ساتھ خصوصی انٹرویو کے دوران انہوں نے بتایا کہ باقی لڑکیوں کی طرح انکے لیے بھی بہت مشکل تھا کہ عملی صحافت میں قدم رکھے لیکن اپنی انتھک محنت کی وجہ سے وہ آج اس مقام پرپہنچی ہیں۔
شروع میں عملی صحافت میں کافی مشکلات پیش آئی
فرزانہ علی کا کہنا ہے کہ ان کا تعلق ڈی آئی خان کے سید خاندان سے ہے تو انکو عملی صحافت میں کافی مشکلات پیش آئی کیونکہ خاندان والوں کے لیے یہ بات ناقابل برداشت تھی کہ وہ مردوں کے بیچ بیٹھ کرکام کریں لیکن انکے والد نے انکو ہمیشہ سپورٹ کیا جس کی وجہ سے آج وہ اس مقام پرہے۔ ‘ ہمارے خاندان کی کچھ بزرگ خواتین تو مجھے اچھی لڑکی بھی نہیں سمجھتے تھے کیونکہ میں صحافی کے طور پر کام کررہی تھی لیکن پھر خوش قسمتی سے مجھے اچھا شوہر ملا جس نے صحافی کے طور پرکچھ کام کیا ہے تو اس کو پتہ تھا کہ اس شعبے کی کونسی ضروریات ہیں، میرے شوہر نے مجھے بہت سپورٹ کیا ہر قدم پر میرا ساتھ دیا، میں نے خود بھی محنت کی جس کی وجہ سے میں آج بیور چیف کے عہدے پر فائز ہوں’
انکو لکھنے کا بہت شوق تھا شروع میں انہوں نے ایک سال تک سب ایڈیٹر کے حیث پہ کام کیا لیکن پھر میگزین کی طرف آگئی۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ میگزین سیکشن کی طرف آئی تو اس وقت خواتین کا ایک پیج بلیک اینڈ وائٹ ہوا کرتا تھا لیکن پھر اس کو کلرفل بنادیا گیا اور انکو اس پیج کا انچارج بنادیا گیا اور ایک سال کے بعد انکو سنڈے میگزین کا انچارج بھی بنادیا گیا۔
فرزانہ علی کے مطابق انہوں نے قریبا 9 سال تک اخبار میں کام کیا اور پھر جب 2006 میں الیکٹرانک میڈیا آیا تو انہوں نے آج ٹی وی کے لیے اپلائی کیا اور اگست 2006 میں رپورٹر کے حیث پہ آج ٹی وی کے ساتھ منسلک ہوگئی۔ ‘پھر 2007 میں دہشت گردی شروع ہوگئی تو آنے والے چند سال دہشت گردی میں گزرے لیکن اس دوران بھی ہم کام کرتے رہے اور 2009 میں یہاں سے ہاٹ فرنٹیئر کے نام سے ایک پروگرام شروع ہوا جس کو میں کیا کرتی تھی اس کے بعد 2010 میں سیلاب آگیا تو اس پروگرام کو سیلاب کی صورتحال کی جانب لے گئے اور اس حوالے سے بات کرنے لگے اور پھر 2012 میں مجھے بیورو چیف بنادیا گیا اور آج تک میں بیورو چیف کے حیث پہ کام کررہی ہوں’ فرزانہ علی نے بتایا۔
خواتین کے لیے موزوں الفاظ کا انتخاب کیا جائے
خیبرپختونخوا کی پہلی اور ملک کی دوسری خاتون بیورو چیف فرزانہ علی کا کہنا ہے کہ اس وقت پورے ملک میں صرف وہی ایک خاتون بیورو چیف ہے، فریحہ ادریس ملک کی پہلی خاتون بیورو چیف رہ چکی ہیں لیکن ابھی وہ اینکرپرسن کے حیث پہ کام کررہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب سے وہ بیورو چیف بنی ہیں تو کوشش کرتی ہیں کہ سٹوریز جینڈر بیلنس ہو، اس کے علاوہ انہوں نے لوگوں کو تربیت دی ہے کہ وہ جب بھی سٹوری کرے تو اس بات کا خیال رکھے کہ جہاں خواتین کی بات ہو وہاں سنسنی خیزی کی بجائے حقائق کو سامنے لایا جائے اور خواتین کے لیے موزوں الفاظ کا انتخاب کیا جائے۔ فرزانہ علی نے کہا کہ وہ خود بھی انسانی اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے سٹوریز پرکام کرتی ہیں تو ان سب چیزوں کا بہت خیال رکھتی ہیں۔
فرزانہ علی نے بتایا کہ انہوں نے ہمیشہ سے کوشش کی ہے کہ خواتین کو اپنے ساتھ رکھیں اور اس سلسلے میں انہوں نے لڑکیوں کو تربیت دینے کے بعد اپنے بیورو میں نوکری بھی دی لیکن بدقسمتی سے وہ اس میں زیادہ کامیاب نہ ہوپائی لیکن وہ مایوس نہیں ہوئی اور اب بھی انہوں نے لڑکیوں کو تربیت دینے کا سلسلہ جاری رکھا ہے اور کوشش کررہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ خواتین میڈیا میں آئے۔
شروع میں جب میں بیورو چیف بنی تو بہت مشکل ہوئی کیونکہ ہمارا معاشرہ مردوں کا ہے اور اگر کوئی خاتون کسی بڑے عہدے پرفائز ہوتی ہے تو یہ بات لوگوں کو ہضم نہیں ہوتی، مرد حضرات ایک دوسرے کی خامیوں پرپردہ ڈال دیتے ہیں اور جو کمزوریاں ہوتی ہے انکی تو وہ اس کو سامنے نہیں لاتے لیکن جب ایک خاتون باس بنتی ہے تو اسکی چھوٹی چھوٹی کمزورویوں کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ شروع میں انکو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ قبائلی معاشرے میں لوگوں کی سوچ مختلف ہوتی ہے لیکن وہ اس معاملے میں کسی حدتک خوش قسمت رہی ہے کہ کچھ لوگوں نے انکے ساتھ بہت تعاون بھی کیا پر خواتین کو مردوں کی نسبت زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔
کچھ لوگ خواتین کو بہت ہلکا لیتے ہیں کہ یہ تو خاتون کچھ نہیں کرسکتی
فرزانہ علی کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ خواتین کو بہت ہلکا لیتے ہیں کہ یہ تو خاتون کچھ نہیں کرسکتی لیکن پھر خاتون اپنے کردار، محنت اور کام کے ساتھ لگن سے خود کو منوا سکتی ہیں کہ نہیں خاتون بھی بہت کچھ کرسکتی ہیں اور ایک مقام تک پہنچ سکتی ہیں اور ایک وقت آتا ہے جب لوگوں کی اس بات کی سمجھ آجاتی ہے یا وہ مجبور ہوجاتے ہیں کہ وہ آپ کو مان لیتے ہیں۔
فرزانہ علی کا کہنا ہے کہ ملک کے دیگر حصوں کی نسبت خیبرپختونخوا میں خواتین کو مسائل کا زیادہ سامنا ہوتا ہے کیونکہ یہاں کے لوگوں کی سوچ دوسرے لوگوں سے مختلف ہے۔ ‘ اٹھارہ انیس مرد بیورو چیف کے ساتھ جب میں ایک خاتون کہیں آفیشل ٹرپ پہ جاتی تھی تو مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا تھا لیکن کچھ لوگوں کو عجیب لگتا تھا کہ آپ بھی جارہی ہے یہ وہ’
ان کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ جب کہیں کسی بات پہ بحث ہورہی ہو اور کوئی خاتون وہاں آجائے تو لوگ اس کے سامنے بات کرنا بند کردیتے ہیں، ہارڈ نیوز کی جب بات آتی ہے تو خواتین کو نظر انداز کیا جاتا ہے کہ یہ تو نہیں کرسکتی لیکن خاتون صحافی اپنے کام سے خود کو منوا سکتی ہیں۔
خواتین کو خود کو منوانے کے لیے مردوں کے مقابلے میں زیادہ محنت درکار ہوتی ہے
خیبرپختونخوا میں خواتین صحافی اعلیٰ عہدوں پرکیوں نہیں فائز اس حوالے سے فرزانہ علی نے کہا کہ اس کی مختلف وجوہات ہیں ایک تو یہ ہے کہ خواتین کو خود کو منوانے کے لیے مردوں کے مقابلے میں زیادہ محنت درکار ہوتی ہے دوسری بات یہ ہے کہ یہاں گھر والے جب سپورٹ نہیں کرتے تو خواتین ویسا کام نہیں کرپاتی جس طرح وہ کرنا چاہتی، مثال کے طور پر کسی کو اجازت نہیں ہوتی کہ وہ ٹی وی پر آئے کسی کو وقت پہ گھر پہنچنا لازمی ہوتا ہے پھر خواتین کو ہرجگہ جانے کی بھی اجازت نہیں ملتی تو اس وجہ سے وہ محنتی اور قابل ہونے کے باوجود اعلی عہدوں تک نہیں پہنچ پاتی۔
فرزانہ علی کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا میں لڑکیاں صحافت کی ڈگری تو لے لیتی ہے لیکن وہ فیلڈ میں نہیں آتی کیونکہ انکو لگتا ہے کہ ٹی وی میں وہ اقدار اور روایات اور پردے کی وجہ سے آنہیں سکتی اور باقی پوسٹوں پرمواقع کم ہیں لیکن انکو یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ضروری نہیں کہ ہر خاتون رپورٹربنے، وہ ایڈیٹر اور پروڈیوسر بن سکتی ہے اور اس کے علاوہ فائنانس سائیڈ یا دوسری نوکری بھی آف کیمرہ کرسکتی ہیں۔