خواتین کا عالمی دن، چارسدہ کی نرس نزاکت شاہین جیسی خواتین کے نام
رفاقت اللہ رزڑوال
‘مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ موت کے دن قریب آگئے ہیں، میرے پھیپھڑوں میں پانی بھر آیا تھا اور سانس لینے میں انتہائی دشواری تھی، مجھے کافی حد تک یقین ہوگیا تھا کہ زندگی کے دن ختم ہوگئے ہیں‘
نزاکت شاہین چند مہینے پہلے کی داستان بیان کر رہی ہے۔ وہ چارسدہ کے ہیڈکوارٹر ہسپتال میں انچارج نرس کے طور پر ڈیوٹی سرانجام دے رہی ہے لیکن کچھ عرصہ پہلے جب وہ کورونا وائرس سے متاثر ہوئیں تو انتہائی نگہداشت وارڈ تک چلی گئی تھی۔
دو ماہ تک بیڈ پر گزارنے کے بعد نزاکت شاہین ایک دن پھر اچانک ہسپتال ڈیوٹی کے لئے روانہ ہوگئیں تو ان کے شوہر نے انہیں منع کردیا کہ جان سے عزیز کچھ بھی نہیں۔ لیکن نزاکت نے شوہر کو کہا کہ میں ایسے وقت میں خود عرض نہیں بن سکتی۔ ہسپتال میں مریضوں کی تعداد روز بہ روز بڑھ رہی ہے اور نرسز سمیت صحت سٹاف گھٹ رہی ہے۔ "ایسی حالت میں بحثیت نرس کے میری نہ صرف ڈیوٹی ہے بلکہ انسانیت کے ناطے اخلاقی ذمہ داری بھی ہے کہ ان مریضوں کی خدمت کروں”
"ایک شہزادہ جس نے میری زندگی تباہ کردی” محض ایک ناول نہیں
"پہلی دفعہ جب میں کرونا وائرس سے متاثر ہوئی تو میں حالت مرگ کی قریب تھی مگر اللہ نے مجھے دوسری جنم دی اور دوبارہ ٹسٹ رزلٹ منفی آنے پر ہسپتال آنا شروع کیا، مریضوں کی خدمت جاری رکھی، ہسپتال میں ڈیوٹی کے ساتھ گھر اور فیملی کی دیکھ بھال بھی کرتی رہی”۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے ٹی این این کے نمائندہ سے ادارے کی جانب سے شروع کئے گئے مہم میڈیا فار ویمن کے لئے انٹریو میں کیا۔ میڈیا فار ویمن ۸ مارچ کو عالمی یوم خواتین کے سلسلے میں یکم مارچ سے شروع کیا گیا ہے اور چودہ تاریخ تک اس مہم میں قارئین کے لئے ایسی خواتین کی کہانیاں اور مسائل سامنے لائے جا رہے ہیں جو ان کی زندگی پر براہ راست اثرانداز ہو۔
امسال اقوام متحدہ نے عالمی یوم خواتین کے لئے’ کوویڈ-19 میں عوام کی حالت بہتر بنانے اور فیصلے سازی میں خواتین کا کردار’ موضوع رکھا ہے۔
‘معاشرے کی اکثریت خواتین کو حقوق دینے سے انکاری ہے’
نزاکت کہتی ہے کہ میری مستقل نوکری چارسدہ ہسپتال میں ہے مگر جب پاکستان میں مارچ 2020 میں کرونا وبا پھیل گئی تو صوبے کے بڑے بڑے ہسپتالوں میں کرونا کے مریضوں کا آنا شروع ہوا۔ مریضوں کے بڑھنے سے بڑے ہسپتالوں میں سٹاف کی کمی سامنے آگئی تو محکمہ صحت نے چھوٹے ہسپتالوں سے سٹاف کی ڈیوٹیاں بڑے ہسپتالوں میں لگوادی جس میں میری ڈیوٹی صوبے کے سب سے بڑے ہسپتال لیڈی ریڈنگ میں لگوائی گئی۔
"کرونا وائرس ایک عالمی وبا ہے، پوری دُنیا کے لوگوں کے دلوں میں خوف تھا اور خوف کی وجہ لوگ گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے تھے، اسی طرح مجھ سمیت ہپستال عملہ اس بیماری سے زیادہ آشنا نہیں تھا۔ سٹاف اور دیگر بنیادی سہولیات کی کمی بھی تھی مگر ہم نے قلیل وسائل میں اپنا کام جاری رکھا ہوا تھا”۔
نزاکت کہتی ہے کہ اسی دوران وائرس نے دوسرے اضلاع کی طرح ضلع چارسدہ کو بھی اپنے لپیٹ میں لے لیا تو مجھے حکم ملا کہ آپ واپس چارسدہ ہسپتال منتقل ہوجائیں۔
"جب میں دوبارہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال آئی تو میرے گلے میں شدید درد شروع ہونے لگی اور ساتھ سونگھنے کی حس بھی ختم ہوئی تو مجھے شک ہوا کہ کرونا بیماری ہے، ٹیسٹ میں کورونا مثبت آیا تو گھر میں ہی آئسولیٹ ہوگئی مسلسل دو ماہ تک میں کرونا سے متاثر رہی، میرے پھیپھڑوں میں پانی پیدا ہوگیا، میں انتہائی تشویشناک حالت میں تھی”۔
ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران کئی مریض انہیں بُلاتے تو اُٹھ کر انکی مدد بھی کرتی، فارغ ہوتے ہی اپنی بات وہی سے جاری رکھتی۔ کہتی ہے کہ جب دوبارہ ٹیسٹ کے بعد نتیجہ منفی آیا تو باوجود اسکے کہ مزید تھوڑا آرام کرتی، لیکن نرسز سٹاف کی کمی اور مریضوں کی فکر نے انہیں دوبارہ ڈیوٹی پر مجبور کیا اور کرونا سے متاثرہ وارڈ میں پڑے مریضوں کی تیمارداری شروع کردی۔ بقول ان کے شوہر نے اس دوران انہیں بہت منع کیا لیکن ضمیر انہیں اجازت نہیں دے رہا تھا۔
نزاکت شاہین سے جب پوچھا گیا کہ مذکورہ حالات میں خاندان کی طرف سے کیا رسپانس تھا تو انہوں نے جواب دیا کہ میرے دوبچے اور شوہر ہیں، شوہر میری جان کی خاطر مجھے اپنی نوکری چھوڑنے کا کہتے تھے مگر جاب شروع کرنے کے دن سے میں نے ہر قسم کے مشکلات سے ہمت کے ساتھ سامنا کرنے کا عزم کیا تھا۔
"خاندان کی باتیں سننے کے دوران بدقسمتی سے میں آیسولیشن وارڈ میں کام کے دوران دوبارہ بیمار پڑھ گئی اور کورونا کے تمام علامات دوبارہ ظاہر ہوگئیں۔ مگر اس دوران بھی میں نے کوویڈ کے مریضوں کی تیمارداری جاری رکھی”۔
انہوں نے ڈیوٹی کے ساتھ اپنے خاندان کی دیکھ بھال کی انتظام سنبھالنے کے حوالے سے کہا کہ ڈیوٹی کے معاملے میں اُن کو شوہر کی مکمل تعاون حاصل ہے، کہتی ہے کہ جب کرونا کی مریضوں کی تعداد بڑھنا شروع ہوئی تو سٹاف کی کمی کیوجہ سے ڈیوٹی کا دورانیہ بڑھنے لگا تو انہوں نے شوہر سے مشاورت کرکے گھر کی کام کاج کو مشترکہ طور پر کرانے کا فیصلہ کیا جس سے مجھے تھوڑا بہت ریلیف ملا۔
انہوں نے معاشرتی رویوں کے متعلق کہا کہ اپنے فرائض سرانجام دینے پر گھروالوں کی طرف سے انہیں مکمل تعاون حاصل ہے مگر ذہنی تناو اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب ہسپتال انتظامیہ کے مردوں کی جانب سے انہیں مختلف طریقوں سے ہراساں کیا جاتا ہے۔
"مریضوں کی تیمارداری تب ممکن ہے جب آپ آزاد ذہن سے کام کرتے ہو مگر یہاں ہمارے ڈیوٹی روسٹر اور دیگر معاملات پر ہسپتال یونین کے افراد اثراندار ہونے کی کوشش کرتے ہیں، کوئی کہتا ہے کہ فلاں ٹائم ڈیوٹی کروگی یا فلاں جگہ ڈیوٹی کرو وغیرہ، تو ایسے ماحول میں ہمارے لئے کام کرنا مشکل ہوجاتا ہے”۔
نزاکت کا کہنا ہے کہ کرونا جیسی جان لیوا مریضوں کی علاج میں فرنٹ لائن ورکرز کے طور پر کام کیا جس میں ہر قسم کے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اگر متعلقہ حکام صحت کے شعبے سے وابستہ عملے بالخصوص خواتین کے مسائل حل کریں تو وہ مردوں کے برابر ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرسکتی ہیں۔