ثوبیہ خان، ڈی آر سی نمائندہ مقرر ہونے والا پہلا خواجہ سراء
سلمان یوسفزے
خيبرپختونخوا پولیس نے تاریخ میں پہلی مرتبہ خواجہ سراء کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی اور ٹی این این کی میزبان ثوبیہ خان کو بطور ڈی آر سی نمائندہ مقرر کر دیا۔
اس حوالے سے ایس پیز کیپٹل سٹی پولیس پشاور نے باقاعدہ ایک نوٹفیکیشن جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ خواجہ سراؤں سے متعلق معمولی نوعیت کے تنازعات اور مسائل بذریعہ ڈی آر سی حل کئے جائیں گے جس کے لیے ثوبیہ خان کو بطور نمائندہ مقرر کیا گیا ہے۔
نوٹیفیکیشن میں ڈی آر سی ماتحت کو ہدایت دی گئی ہے کہ خواجہ سراؤں سے متعلق درخواست ملنے پر وہ ثوبیہ خان سے رابط کریں جنہیں پشاور کے تمام ڈی آر سی افس میں خواجہ سراؤں کی نمائندہ مقرر کیا گیا ہے اور وہ خواجہ سراؤں کے مسائل کے فوری حل اور منصفانہ فیصلہ کیلئے دیگر ڈی آرسی ممبران کے ساتھ موجود ہوں گے۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے خواجہ سراؤں کی کلچر سیکرٹری اور جرنلسٹ ثوبیہ خان نے کہا کہ یہ محض ایک عہدہ نہیں بلکہ امید کی ایک راہ ہے جس کے ذریعے وہ معاشرے کے سب سے مظلوم طبقے خواجہ سراؤں کے مسائل اور ان کو انصاف فراہم کرنے کی کوشش کریں گی۔
ثوبیہ کے مطابق معاشرے میں ہر روز کسی نہ کسی خواجہ سراء کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، وہ تھانے جاتے ہیں، ایف آئی آر کاٹ دی جاتی ہے لیکن تاحال کسی ملزم کو ان کے ظلم کی سزا نہیں دی گئی جس کی وجہ سے خواجہ سراء کمیونٹی میں احساس کمتری بڑھ گئی ہے اور وہ مایوس ہو گئے ہیں کیونکہ ان کی فریاد سننے اور انہیں انصاف فراہم کرنے والا کوئی نہیں تاہم اب وہ خود ان کی فریاد سنیں گی اور ممکن حد تک ان کو انصاف فراہم کرنے کی کوشش کریں گی۔
ثوبیہ خان نے بتایا کہ وہ ماس کمیونیکشن میں بی اے کر چکی ہیں اور جرنلزم میں ماسٹر کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں جبکہ وہ پشاور میں مقامی ریڈیوز پر بھی بطور میزبان پروگرام کرتی ہیں جس میں وہ خواجہ سراؤں سمیت معاشرے کے ہر پہلو پر بات کرتی ہیں۔
ثوبیہ خان کے مطابق شروع میں انہوں نے بیمار والدین کا علاج اور گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لئے بہت مجبوری سے ناچ گانے کے شعبے کو اپنایا تاہم وقت گرزنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے ناچ گانا چھوڑ دیا اور چاہتی ہیں کہ اب عزت کی نوکری کریں کیونکہ اس فن کو معاشرے میں اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا۔
‘ثوبیہ خان رول ماڈل ہے ‘
خواجہ سراؤں کے مسائل پرکام کرنے والے سوشل ورکر قمر نسیم نے خیبر پختونخوا پولیس کے اس اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ واقعی یہ ایک مثبت اقدام ہے اور ان کے مطابق ثوبیہ خان خیبر پختونخوا میں خواجہ سراؤں کیلئے رول ماڈل ہیں کیونکہ ثوبیہ خان کا جرنلزم کی طرف آنا اور پھر ڈی آر سی میں ممبر بننا اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواجہ سراء بھی عام لوگوں کی طرح ذمہ داریاں پوری کر سکتے ہیں اور وہ بھی اس معاشرے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
قمر نسیم نے بتایا ایک اندازے کے مطابق خیبر پختونخوا میں 40 ہزار سے زائد خواجہ سرا موجود ہیں جن میں ثوبیا خان وہ واحد خواجہ سراء ہیں جنہیں پہلی مرتبہ ڈی آر سی ممبر بنایا گیا ۔
قمر نسیم کے مطابق ثوبیہ خان نے ثابت کر دیا کہ خواجہ سراء صرف ناچ گانے کے لیے نہیں پیدا ہوئے بلکہ اگر انہیں بھی مواقع فراہم کیا جائے تو وہ بھی اپنی صلاحیتوں کی بدولت سب کچھ کر سکتے ہیں جو ہم کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں لوگ انہیں بنیادی حقوق سے محروم رکھتے ہیں، انہیں تنگ کرنے کے ساتھ ساتھ ان پر تشدد بھی کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں جو خواجہ سراء تعلیم حاصل کرتا ہے، ہم ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں لیکن یہاں پر خواجہ سراء اگر تعلیم حاصل کر بھی لیں تو انہیں نوکری کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے کیونکہ بہت سے شی میل اپنی شناخت کے ساتھ نوکری کرنا چاہتے ہیں۔
‘خواجہ سراؤں پر تشدد’
قمر نسیم کے مطابق خیبر پختونخوا میں 2015 سے اب تک 83 خواجہ سرا قتل ہو چکے ہیں لیکن ان کو قتل کرنے والے کسی ملزم کو عمر قید، پھانسی یا کوئی بڑی سزا نہیں ہوئی جس کی بڑی وجہ پولیس کی بری تفتیش ہے ‘جب کوئی خواجہ سرا قتل ہوتا ہے تو پولیس کی آپریشن ٹیمیں فوری طور پر ملزم کو گرفتار کر لیتی ہیں لیکن گرفتاری کے بعد کیس تفتیشی افسر کے پاس جاتا ہے تو وہ اس میں کمزور دفعات لگا دیتا ہے، کیس کی اکثر دفعات تبدیل بھی کر دیتا ہے جس کی وجہ سے اس انسانی خون پر ملزمان کو آج تک بڑی سزا نہیں ہو سکی۔’
قمر نسیم کا کہنا تھا کہ خواجہ سراؤں کو قتل کرنے والے ملزمان کے جلد بری ہو جانے میں ایک بڑی وجہ کسی بھی واقعے کے بعد خواجہ سراؤں کی جانب سے عدم دلچسپی بھی ہے کیونکہ خواجہ سراء عدالتوں میں تاریخوں پر پیش نہیں ہوتے جبکہ ایف آئی آر کے اندراج تک خواجہ سرا کافی ایکٹیو ہوتے ہیں لیکن بعد میں کیس کو فالو نہیں کرتے اور وکیل کی خدمات حاصل کرنا بھی ان کے لئے مسئلہ ہے۔