ریڈیو سننے والوں کے دلوں کی دھڑکن، آرجیز کا معاوضہ صرف 480 روپے
خالدہ نیاز
ہمارے معاشرے میں کئی افراد اور خصوصی طور پر خواتین گھروں میں ریڈیو کو بہت شوق سے سنتے ہیں اور اس پر جو آرجیز آتے ہیں چاہے وہ خواتین ہو یا پھر مرد وہ ان کے لیے رول ماڈل بن جاتے ہیں۔ انہیں میزبانوں کو سن کر معاشرے میں تبدیلی آرہی ہے چاہے وہ لڑکیوں کی تعلیم حوالے سے ہو یا پھر خواتین کی صحت کے حوالے سے ، غرض ریڈیو میزبان زندگی کے ہرشعبے اور معاشرے کے تمام لوگوں کی ترجمانی کررہے ہیں لیکن بدقسمتی سے دوسروں کے لیے رول ماڈل بننے والے خود کئی ایک مسائل سے دوچار ہے۔
عمر رحمان (فرضی نام) خیبرپختونخوا کے ضلع مردان میں ایک سرکاری ریڈیو کے ساتھ آر جے کے حیث پہ کام کررہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ وہ بہت زیادہ محنت کرتے ہیں کیونکہ انکو شوق ہے کہ ریڈیو میں اپنا نام کمائے لیکن پروگرام کے معاوضے نے اب انکو مایوس کردیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سال 2013 سے ریڈیو سے منسلک ہے لیکن بدقسمتی سے انکو محنت کے برابر صلہ نہیں ملتا اور انکو ایک پروگرام کے 600 روپے ملتے ہیں اور اس میں سے بھی 20 فیصد ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے اور بعد میں 480 روپے بچ جاتے ہیں۔
‘ میں 80 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے پروگرام کے لیے آتا ہوں اور اس پر میرا 300 روپے کا خرچہ آتا ہے تو اس طرح میرے پاس 180 روپے بچ جاتے ہیں ایک پروگرام کے لیکن آجکل مہنگائی کا دور ہے پھر میرے دو بچے بھی ہے تو کچھ بھی نہیں بچتا میرے پاس’ عمر رحمان نے کہا۔ انہوں نے بتایا کہ جب وہ اور ان جیسے لوگ ریڈیو کے لیے تخلیقی کام کرتے ہیں تو انکو بھی اس کا اچھا معاوضہ ملنا چاہیئے۔
تاہم وطن ریڈیو ایف ایم 8۔90 کے سٹیشن منیجر محبوب جبران کا کہنا ہے کہ معاوضوں کا انحصار میزبان کی قابلیت، پروگرام کی نوعیت اور سکوپ پر ہوتا ہے۔ اپنے ریڈیو کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ انکے ریڈیو میں ایک شو کے میزبان کو 500 روپے سے لے کر 1000 روپے تک ملتے ہیں اور جو آرجیز زیادہ محنت کرتے ہیں اور انکے پروگرام کا کنٹینٹ اچھا ہوتا ہے تو انکو اچھے پیسے ملتے ہیں جبکہ باقی کو کم ملتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ معاوضوں کا تعلق اشتہارات سے بھی ہوتا ہے اب اگر ریڈیو کو اشتہارات نہیں ملیں گے تو وہ آرجیز کو کہاں سے معاوضے دیں گے؟ محبوب جبران نے کہا کہ پرائیویٹ ریڈیو سٹیشنز نے پھر بھی معاوضے بڑھادیئے ہیں لیکن سرکاری ریڈیوز میں آج بھی میزبانوں کو وہی 200 یا 300 روپے فی پروگرام کے حساب سے ملتے ہیں جو بہت ہی کم ہے۔
ریڈیو براڈکاسٹرز کے مسائل کو دیکھتے ہوئے ریڈیو سے جڑے افراد نے سال 2019 میں ریڈیو براڈکاسٹرز فورم کے نام سے ایک تنظیم بھی بنائی ہے تاہم اس پر بھی تنقید کی جارہی ہے کہ ابھی تک براڈکاسٹرز کے فلاح وبہبود کے لیے کوئی عملی کام نہیں کیا۔
مرد آرجیز کی نسبت خواتین آر جیز زیادہ مشکلات سے دوچار ہیں۔ پشاور میں پچھلے کئی سالوں سے میزبان کے طور پر ریڈیو سے وابستہ ثمینہ ناز کا کہنا ہے کہ خواتین آرجیز کو کئی مسائل کا سامنا ہے، جو سب سے اہم مسئلہ ہے وہ یہ ہے کہ اگر کسی نے باقاعدہ جرنلزم کی ڈگری لے رکھی ہے اور صحافتی اصولوں کے مطابق پروگرام کرتی ہو تب اس کو صحافی نہیں مانا جاتا اور دوسری بات یہ ہے کہ انکو پریس کلب کی ممبرشپ بھی نہیں ملتی جو لمحہ فکریہ ہے۔ اگر کہیں سے ان آرجیز کو کوئی سکالرشپ وغیرہ ملے تو بھی باقی اس پر تنقید کرنا شروع کردیتے ہیں ‘ میں مانتی ہوں کہ کئی آرجیز ایسے ہیں جن کا جرنلزم کا بیک گراونڈ نہیں ہے لیکن جن کا ہے انکو تو قبول کیا جائے’ ثمینہ ناز نے کہا۔
ریڈیو براڈکاسٹرز فورم کے ساتھ اس وقت 191 براڈ کاسٹرز رجسٹرڈ ہے جن میں سے 165 کو فل ممبرشپ حاصل ہے جبکہ 26 افراد ایسے ہیں جو سرکاری ملازم ہیں اور مختلف ریڈیو چینلز سے وابستہ ہے لیکن خیبرپختونخوا میں اس وقت سینکڑوں کی تعداد میں ریڈیو براڈکاسٹرز کام کررہے ہیں۔
معاوضوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ثمینہ ناز نے بتایا کہ آرجیز کو ملنے والا معاوضہ بہت کم ہوتا ہے اور آجکل مہنگائی کا دور ہے تو 600 روپے سے کچھ نہیں ملتا لیکن ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ آرجیز میں اتحاد کی بہت کمی ہے کیونکہ اگرایک آر جے کم پیسوں پہ کام نہیں کرتا تو کوئی دوسرا آجاتا ہے اور انہیں پیسوں پہ کام شروع کردیتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایف ایمز آجکل جتنے پیسے دیتے ہیں پروگرام میزبانوں کو وہ بہت کم ہے اور جہاں کہیں پیسے کچھ اچھے ہیں وہ پھر آرجیز کو اس حساب سے پروگرام کم دیتے ہیں تو ہونا تو یہ چاہیئے کہ باقی لوگوں کی طرح آرجیز کو بھی ماہانہ تنخواہ ملا کریں تاکہ انکی مشکلات میں بھی کمی آسکیں۔
باقی مسائل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ثمینہ ناز نے بتایا کہ ہمارے معاشرے میں جب کوئی لڑکی ریڈیو میں آجاتی ہے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ لڑکی تو بہت آزاد ہے حالانکہ ایسا نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ آرجیز معاشرے کے ان لوگوں کو معلومات فراہم کرتے ہیں اور ان میں آگاہی پیدا کرتے ہیں جو بہت دور دراز کے علاقے ہوتے ہیں اور جو لوگ زیادہ پڑھے لکھے بھی نہیں ہوتے لیکن جب حقوق کی بات آتی ہے تو آرجیز کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بے روزگاری کی وجہ سے بعض اوقات اچھے آرجیز بھی ایسے پروگرامز کرنے پرمجبور ہوجاتے ہیں جو وہ کرنا نہیں چاہتے جس طرح کریمز اور حکیموں والے پروگرام۔ کام کرنے کی جگہوں پرحراسانی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ثمینہ نے بتایا کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کچھ لڑکیوں کو پروگرام کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا لیکن اگرانکی شکل اچھی ہو تو انکو پروگرام مل جاتے ہیں اور اگر کوئی لڑکی بہت بھی قابل اور محنتی ہو لیکن اس کی صورت اچھی نہ ہو تو اس کو موقع نہیں ملتا، اس کے علاوہ خواتین کے لیے دفاتر اور باقی جگہوں پر علیحدہ بیت الخلاء تک نہیں ہے۔
ریڈیو براڈکاسٹر فورم کے حوالے سے ثمینہ نے بتایا کہ انکے ساتھ رجسٹرڈ ہونے کا ایک لمبا پراسیس ہے اور وہ فورم اقدامات کرنے کی کوشش تو کررہا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کوئی سننے والا نہیں ہے۔
خیبرپختونخوا ریڈیو براڈکاسٹرز فورم کے مرکزی صدر جناب خائستہ رحمان کا اس حوالے سے کہنا ہے نیوز اینکر، آر جے اور ڈرامہ آرٹسٹ کے طور پر وہ خود کام کر چکا ہے ان تمام مراحل سے گزر کر انکو یہ اندازہ ہو گیا کہ یہ لوگ بہت اہم ہیں، کمیونٹی ان سے بہت کچھ سیکھ رہی ہے، لیکن ان کی لئے کوئی سہولت یا سیکیورٹی موجود نہیں ہے جس کے بعد انہوں نے پہلے بھی ایک کوشش کی تھی جس میں کامیابی نصیب نہیں ہوئی لیکن اب باقاعدہ ان براڈ کاسٹرز کے لیے تنظیم تشکیل دی ہے جس کا باقاعدہ طور پر الیکشن بھی کرچکے ہیں۔
خائستہ رحمان نے کہا کہ انہوں نے اس فورم کے ذریعے سب کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا، ان کے انتخابات کروائے ایک کابینہ بنائی اور ان کیلئے ایک آئین بنایا۔
انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخواہ میں پہلی بار ورلڈ ریڈیو ڈے اس پلیٹ فارم کے توسط سے منائی گئی۔ جہاں تک معاوضوں کا تعلق ہے تو حال ہی میں انہوں نے ایک پالیسی بنائی اور اس کو مشتہربھی کرایا ہے اور آج ورلڈ ریڈیو ڈے پر کامران بنگش اس کی منظوری بھی دینگے اور اس کو ایکٹ کے طور پر اسمبلی میں بھی لے جائیں گے، اور جب وہاں سے منظوری ہوئی تو یہ لاگو ہو جائیں گی اور تمام سرکاری اور نجی چینلز پر نافذ کرنے کیلئے انکی فورم اس کے ساتھ بطور باڈی کام کریں گی۔
اس وقت پاکستان میں کل 239 ایف ایم ریڈیو سٹیشن کام کررہے ہیں جن میں سے 49 سرکاری ہیں جبکہ پرائیویٹ کمرشل اور نان کمرشل ہیں۔ خیبرپختونخوا میں کل ریڈیو سٹیشنز کی تعداد 24 ہے جن میں 7 سرکاری چینلز ہیں۔
خائستہ رحمان نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ اس سے پہلے ہائیرنگ مرضی کی مطابق ہوتی تھی، اور جب مرضی ہوتی تھی نکال دیتے تھے۔ اب اس کیلئے اپنی پالیسی بنائی ہے، ان کے معاوضے کیلئے الگ پالیسی بنائی، ان کی سکیورٹی کیلئے الگ پالیسی بنائی۔
اس کے ساتھ ان کو رجسٹریشن کے بعد پینشن بھی ملے گی اور جب یہ لیبر ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ رجسٹرڈ ہو جائیں گے تو ان کو ادارے کم سے کم 20000 تنخواہ دینگے خواہ وہ جس بھی کیپیسیٹی میں استعمال ہو ان کو 20000 سے کم تنخواہ نہیں ملے گی یعنی آر جے ہو یا نیوز اینکرسب کو ماہانہ 20 ہزار روپے ملیں گے۔ اس طرح ان کو مخلتف گرانٹس ملیں گے میرج گرانٹ، بے بی گرانٹ وغیرہ جو لیبرز کو ملتے ہیں، اس کے علاوہ براڈکاسٹنگ میں فیلٹریشن کا کوئی طریقہ کار نہیں، ہر قسم کے لوگ اگر جائن کرتے ہیں، آب انکی فورم اس حوالے سے بھی کام کررہی ہے کہ کوئی سرکاری ملازم یہاں نہ آسکیں کیونکہ براڈکاسٹرز کی روزی روٹی ریڈیو سے جڑی ہوئی ہے۔
سٹیشن منیجر محبوب جبران کے مطابق کمرشل ریڈیو چینلز میں پیسے صلاحیت اور قابلیت کی بنیاد پر دیئے جاتے ہیں، کمیونٹی میں اس کا کیا مقام ہے اور وہ کتنے لوگوں کو انگیج کرتا ہے یا ساتھ لے کرچلتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ بدقسمتی سے خیبر پختونخوا میں زیادہ تر لوگ ریڈیوز کو شوق کی وجہ سے جائن کرتے ہیں اور بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ تریبت یافتہ لوگ میزبان بننے کے لیے آئے، ایک ریڈیو سسنے والا بھی آجاتا ہے کہ انکو آرجے بننا ہے تو اگر کمرشل ریڈیوز ان کو 100، 200 روپے دیتے ہیں وہ صرف ان کو کرایہ وغیرہ کیلئے دیتے ہیں جب وہ بہتر ہو جاتا ہے تجربہ کار ہو جاتا ہے توپھر ان کو پیسے بھی پھر زیادہ دیئے جاتے ہیں۔
انہوں نے تسلیم کیا کچھ ریڈیوز لوگوں کو جمع کرتے ہیں پر ان کو پیسے نہیں دیتے لیکن ان کا طریقہ کار ہے کہ یہاں جتنے لوگ آتے ہیں باقاعدہ ان کو مہینے کے آخر میں ادائیگی کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر کسی کو ایڈوانس میں ضرورت ہو تو ادارہ بھرپور تعاون کرتا ہے لیکن معاوضہ کے ساتھ ساتھ ادارہ ان کو ایجوکیٹ بھی کرتا ہے اور ان کو نئی چیزیں سکھاتا ہے۔