خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

‘دفتر کے سربراہ نے ہراساں کرنا شروع کیا تو میں نے نوکری چھوڑ دی’

 

سدرہ آیان

"شروع میں وہ لوگ میری بہت عزت کرتے تھے لیکن کچھ وقت بعد انہوں نے مجھے ہراساں کرنے کی کوشش کی اور مجھے بار بار غیر ضروری کاموں کے سلسلے میں آفس بلایا گیا لیکن میں ان لوگوں کی حرکتوں کو جان چکی تھی اسلئے مجھے نوکری سے زیادہ اپنی عزت پیاری تھی اور میں نے وہ نوکری چھوڑ دی”
یہ کہانی مردان کے علاقہ شیخ ملتون نے تعلق رکھنے والی عذرا کی ہے جس نے پیسوں کے بجائے اپنی عزت کو فوقیت دی اور نوکری کو لات مار دی۔
عذرا کے مطابق انہیں گھر کے قریب ہی ایک غیرسرکاری ادارے میں نوکری ملی تھی لیکن دفتر کا سربراہ انہیں ہراساں کرتا تھا جس کے باعث وہ تنگ آکر گھر بیھٹنے پر مجبور ہوگئی۔ عذرا نے الزام لگاتے ہوئے کہاکہ وہ اکیلی لڑکی نہیں تھی جسے ہراساں کیا جاتا تھا اس کے دفتر میں جتنی بھی لڑکیاں کام کرتی ہیں ان سب کو مختلف طریقوں سے ہراساں کیا جاتا ہے لیکن بدنامی اور مجبوری کی وجہ سے کوئی بھی لڑکی یہ ہمت نہیں کرسکتی کہ وہ اس کے خلاف آواز اٹھائیں۔
‘دفتر میں جب لڑکیاں کوئی فائل بوس کے پاس لے جاتی تھی تو اس دوران بوس لڑکیوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھ کر انکے کام کو سراہتا تھا لیکن یہ سب مجھے سے برادشت نہیں ہوتا تھا اور میں حیران ہوجاتی تھی کہ لڑکیاں یہ سب کچھ کیسے برداشت کرتی ہیں بوس تو ہاتھ لگائیں بغیر بھی ان کے کام کی تعریف کرسکتا تھا’

یہ بھی پڑھیں: ،مرد نے جب تنگ کرنا ہوتا ہے تو عبایا میں بھی کرتا ہے،

‘پبلک ٹرانسپورٹ میں ہراسانی کی وجہ سے میری کئی دوستوں نے نوکریاں چھوڑ دیں’

عذرا او ان جیسی ہزاروں لڑکیاں دفتروں اور دیگر کام کرنے والی جگہوں پر جنسی ہراسانی کے خلاف آواز اٹھانے سے اسلئے ڈرتی ہیں کہ کہیں وہ بدنام نہ ہوجائے اور معاشرہ انہیں بری نظر سے نہ دیکھیں اس لئے جنسی ہراسانی میں ملوث مجرموں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔
اس حوالے سے پشاور ہائی کورٹ کی وکیل افیشن کا کہنا ہے کہ دفتروں اور دیگر کام کرنے والی جگہوں پر جنسی ہراسانی کے روک تھام کیلئے قانون موجود ہے لیکن اس پر بہت کم عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ افشین کے مطابق اس قانون کے تحت اگر کوئی خاتون شکایت درج کریں تو مجرم شخص کو سخت سزا دی جاتی ہے۔
” اگر کسی خاتون یا لڑکی کو کوئی غیر مرد تنگ کریں یا اسے کوئی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے کوئی ایسا پیغام بھیجے جس میں نازیبا الفاظ درج ہو اور مجرم پر جرم ثابت ہوجائے تو اس صورت میں قانون کے تحت مجرم کو 3 سال تک قید کی سزا سنائی جاتی ہے” افشین نے بتایا۔
دفتروں اور کام کرنے کی دیگر جگہوں پر خواتین کی ہراسانی کی روک تھام کیلئے کام کرنے والی صوبائی محتسب رخشندہ ناز بھی ایڈوکیٹ افشین کی باتوں سے اتفاق کرتی ہے اور کہتی ہیں کہ سرکاری اور نجی دونوں اداروں میں خواتین کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے لیکن مسلہ یہ ہے کہ خواتین اس معاملے پر خاموش رہتی ہیں۔
رخشدہ ناز کے مطابق گزشتہ برس خیبرپختونخوا میں خواتین کے ساتھ جنسی ہراسانی کے 112 کیسز رپورٹ ہوئے تاہم اس میں مردان سے ایک بھی شکایت موصول نہیں ہوئی ہے۔
صوبائی محتسب کا کہنا ہے کہ موجودہ قانون لاگو ہونے کے بعد انہوں نے تمام اداروں کو ہدایت دی ہے کہ وہ اپنے اداروں میں” کوڈ آف کنڈکٹ” کے پمفلٹ لگائیں اور اس حوالے ایک کمیٹی تشکیل دے (جس کا مقصد دفتروں میں ہراسانی کے واقعہ کو رپورٹ کرنا اور اصلی وجوہات جاننا ہے) اور اگر ادارے ان احکامات پر عمل نہ کریں تو اس ادارے کو جرمانہ کیا جائیگا۔
تاہم دوسری جانب عذرا نے جنسی ہراسانی کی روک تھام کے لئے بنائی گئی قانون سے لاعملی کا اظہار کیا ہے اور کہتی ہے کہ وہ اس حوالے کچھ نہیں جانتی اور نہ ہی کبھی کسی سے اس قانون کے بارے میں سنا ہے۔
اس حوالے سے جب رخشندہ سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے کی خواتین اس حوالے سے بے خبر ہیں اور ان میں شعور کی کمی ہے لیکن پھر میں انہیں امید ہے کہ بہت جلد ہمارے معاشرے کی خواتین بھی باہمت ہوکر اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھائینگی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button