خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

‘میں دوبارہ اپنے بچوں کو فاقے کرتے نہیں دیکھ سکتی’

ہما ہاشم
‘میرا شوہر وفات پاچکا ہے اور میرے تین بچے ہیں، اتنی مہنگائی میں میری صرف 8 ہزار روپے تنخواہ ہے جس پہ آج کل گھر چلانا بہت مشکل ہوجاتا ہے کورونا وائرس کی وجہ سے کبھی کبھار وہ آمدن بھی بند ہوجاتی ہے’
مردان کے علاقے سکندری سے تعلق رکھنے والی 40 سالہ بیوہ گل زرینہ لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہیں جس کے اس کو 8 ہزار روپے ماہانہ ملتے ہیں اور ان پیسوں سے وہ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتی ہے اور باقی ضروریات پوری کرتی ہیں۔ گل زرینہ کا کہنا ہے کہ چند ماہ قبل جب کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاون نافذ ہوا تو اس وقت ان کی مشکلات میں بے حد اضافہ ہوا کیونکہ لوگوں نے اس کو اپنے گھر آنے سے منع کردیا اوریوں اس کی وہ 8 ہزار تنخواہ بھی ختم ہوگئی۔
بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے مطابق پاکستان میں لگ بھگ ساڑھے آٹھ لاکھ افراد جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں گل زرینہ جیسے گھریلو ملازمت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ غربت ، ناخواندگی اور ملازمت کے مواقع کی کمی کی وجہ سے ان لوگوں کے پاس دوسروں کے گھروں میں روزگار کے حصول کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے تاہم گھریلو ملازمین کے لیے کوئی قانون سازی نہیں ہوئی۔

لاک ڈاون کے دوران میرے بچوں نے فاقے کیے
ان کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی دوسری لہر جاری ہے اور اگر ایک مرتبہ پھر مالکوں نے اس کو گھر آنے سے روک دیا تو ان کو نہیں پتہ کہ کیا کریں گی کیونکہ اسی تنخواہ سے ان کا گھر چلتا ہے۔ ‘کورونا کے پہلے لاک ڈاون کی وجہ سے ہمیں مالکوں نے گھر آنے سے روک دیا، میں جہاں کام کرتی تھی تو ان لوگوں نے مجھے کہہ دیا کہ اب آپ ہمارے گھر مت آو کیونکہ لوگ کورونا وائرس کے پھیلنے سے ڈر رہے تھے، اس دوران میرے بچوں نے فاقے کیے بہت برے حالات سے گزری ہوں اب دوبارہ کورونا وائرس کی دوسری لہر ہے اور اگر ایسے میں پھر لاک ڈاون لگ گیا تو ہم غریبوں کے لیے پھر زندگی عذاب ہوجائے گی’ گل زرینہ نے بتایا۔

یہ بھی پڑھیں: ‘قانون یا پالیسی ہے نہیں، ہوم بیسڈ ورکرز خصوصاً خواتین کا استحصال جاری ہے’

بڑے برینڈز کا ریپلیکا کوئی صوابی کی جہاں آراء سے سیکھے، لیکن صلہ کون دے گا؟

کورونا وائرس اور لاک ڈاون کی وجہ سے گل زرینہ کی طرح کئی لوگ مشکلات سے دوچار ہوئے تھے لیکن گل زرینہ کا کہنا ہے کہ اس دوران مردوں کی نسبت گھروں میں کام کرنے والی خواتین کی مشکلات زیادہ تھی۔

معاشی تنگدستی کہ وجہ سے گھر میں لڑائی جھگڑے بھی زیادہ ہوگئے تھے
تخت بھائی کی مباحستہ بھی غربت، مہنگائی اور شوہر کی بیماری کی وجہ سے لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہے۔ مباحستہ کا کہنا ہے کہ معاشی تنگدستی کہ وجہ سے گھر میں لڑائی جھگڑے بھی زیادہ ہوگئے تھے۔ ‘ لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہوں، میں لوگوں کے گھروں میں جھاڑو لگاتی ہوں، برتن دھوتی ہوں اور کپڑے بھی دھوتی ہوں کیونکہ میرے شوہر نے کمر کا آپریشن کیا ہے اور زیادہ بھاری کام نہیں کرسکتا لیکن جب کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاون لگ گیا تو مالکوں نے کہا کہ اب مت آو جس کی وجہ سے وہ دن بہت تکلیف میں گزرے اب پھر کورونا وائرس کا شور ہے تو میں پھر پریشان ہوگئی ہوں کہ اب پھر کیا ہوگا؟’ مباحستہ نے حیرت سے ہوئے کہا۔
خیبرپختونخوا میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی پرائیویٹ ادارے د حوا لور کی انتظامی افسر خورشید بانو کا کہنا ہے کہ صوبے میں جو خواتین محنت مزدوری کرتی ہیں ان میں 77 فیصد ہوم بیسڈ ورکرز ہیں جو اپنے گھروں میں ہی مختلف کام کرتی ہیں جبکہ زیادہ خواتین ایسی بھی ہیں جو دوسرے لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہیں۔

خواتین احساس ایمرجنسی کیش پروگرام سے کیوں محروم رہ گئی؟
‘مارکیٹس بند ہونے کی وجہ سے ہوم بیسڈ ورکرز کا بہت نقصان ہوا اس کے علاوہ جو خواتین دوسرے لوگوں کی گھروں میں کام کرتی ہیں ان کو بھی لوگوں نے گھروں میں آنے سے روک دیا تو انکے گھروں کے چولہے بھی ٹھنڈے پڑگئے، ہمارے ادارے نے پشاور، مردان اور چارسدہ میں ایسی خواتین کو نہ صرف راشن دیئے بلکہ ان کو سینی ٹائزرز وغیرہ بھی دیئے اور اس کے علاوہ لیبرڈیپارٹمنٹ کے ساتھ بھی میٹنگز کئے کہ ان خواتین کی مدد کرے’ خورشید نے وضاحت کی۔
انہوں نے بتایا کہ لاک ڈاون کی وجہ سے ایسی خواتین بہت متاثر ہوئی لیکن حوا لور کی طرح کئی ایک اداروں نے کوشش کی ہے کہ ایسی خواتین کی مدد کریں’ اس کے علاوہ حکومت نے احساس ایمرجنسی کیش کا جو پروگرام شروع کیا تھا وہ ابھی ایک اچھا اقدام تھا لیکن بہت ساری خواتین شناخی کارڈز نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس سے محروم رہ گئی، ابھی کورونا وائرس کی دوسری لہر جاری ہے تو ہم سوچ رہے ہیں کہ کیسے ان خواتین کی مدد کریں تاکہ انکے گھروں کا چولہا جلا رہے’ خورشید بانو نے کہا۔
ان خواتین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت دوبارہ لاک ڈاون نہ لگائے تاکہ انکو دوبارہ فاقوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button