‘میرا شوہر اس بات پر راضی نہیں تھا کہ ہسپتال میں پرائے مرد میرا علاج کریں’
ماہ نور
‘مجھے کورونا کی بیماری لاحق ہوئی تھی لیکن میرے سخت مزاج شوہر مجھے گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں دیتے تھے تاکہ میں کسی ڈاکٹر کے پاس جاکراپنا علاج کرواسکوں حالانکہ میری حالت بہت خراب تھی’
مردان کی علیشا نے تقریبا پندرہ دن بستر پرگزارے کیونکہ ان میں کورونا وائرس کی علامات موجود تھی اور سانس لینے میں دشواری درپیش تھی لیکن شوہر کی اجازت کے بغیر وہ ہسپتال نہیں جاسکی۔ ان کا کہنا ہے ک بعد میں محلے والوں نے انکو گرم پانی، قہوہ او صفائی کا خیال رکھنے کی تلقین کی اور اس دوران انہوں نے اپنے بچوں سے بھی فاصلہ رکھا کہ کہیں انکو بھی کورونا نہ ہوجائے۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے علیشا نے بتایا کہ بیماری کے دوران انہیں ہسپتال جانے کی ضرورت تھی لیکن ان کا شوہر اس بات پر راضی نہیں تھا کہ وہ ہسپتال میں پرائے مردوں سے علاج کراوئیں۔وہ کہتی ہے کہ بیماری کے ایام انہوں نے گھر کے ایک کمرے میں گزارے ہیں اور اس دوران وہ باقاعدہ طور پر ہاتھوں کو صابن سے دھوتی، سینٹائزر کا استعمال کرتی اور روزانہ صاف کپڑے پہنتی تھی جس سے ان کی طبعت کافی بہتر ہوچکی ہے تاہم اب بھی ان کے شوہر یہ بات مانے کو تیار ہی نہیں کہ عورت کو بھی علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔
عالمی ادارہ برائے صحت ڈبلیو ایچ او کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں مردوں کی نسبت خواتین بہت کم کورونا وائرس کا شکار ہوتی ہیں اور کورونا وائرس سے متاثرہ افراد میں مردوں کی شرح 72 جبکہ خواتین کی 28 ہے۔کورونا وائرس سے متاثر خواتین کی تعداد میں کمی کے باعث ہسپتالوں میں خواتین مریضوں کی تعداد کم دکھائی دیتی ہے تاہم دوسری جانب پختون معاشرے پر گہری نظر رکھنے والی شاہ لیلیٰ کا کہنا ہے کہ ہسپتالوں اور آئسولین وارڈ میں خواتین مریضوں کی تعداد میں کمی کا بڑا مسلہ یہاں کی سماجی پابندیاں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہسپتالوں میں مختص وارڈ میں مریضوں کے علاوہ کسی اور کو اندر جانے کی اجازت نہیں دی جاتی لیکن پھر بھی علیشا کے شوہر جیسے بہت سے مرد کبھی بھی اپنی بیوی کو ہسپتال میں علاج کروانے پر راضی نہیں ہوتے۔
کورونا وائرس سے متاثرہ خواتین کو نہ صرف ہسپتالوں میں علاج کرانے سے منع کیا جاتا ہے بلکہ ہمارے معاشرے میں بہت سے ایسی خواتین بھی ہیں جو غلط معلومات ، افواہوں اور سماجی پابندیوں کے باعث علاج کرنے سے کتراتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں : "لاک ڈاؤن کے دوران شوہر کے ساتھ جھگڑوں کی وجہ سے بات طلاق تک پہنچ گئی تھی”
مردان میڈیکل کمپلیکس کے کورونا وارڈ میں ڈیوٹی کرنے والے ڈاکٹر محمد بلال کا کہنا ہے کہ مردوں کی نسبت خواتین وارڈ میں مریض بہت کم آتے ہیں جس کی بڑی وجہ خواتین کا غلط معلومات اور گھریلوں ٹوٹکو پر عمل کرنا ہے۔ ڈاکٹر بلال کے مطابق گھریلوں ٹوٹکو پر عمل کرنے سے بہتر ہے کہ مریض ڈاکٹر سے رجوع کریں کیونکہ جب ہسپتال میں کسی مریض کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے تو ڈاکٹر کو مریض کی بیماری کا علم ہوجاتاہے اور پھر اس بیماری کے علاج کیا جاتا ہے۔
اگر ایک طرف مردان میں علیشا جیسے خواتین کو سماجی پابندیوں اور کورونا وائرس لگنے کی ڈر سےہسپتال جانے سے منع کیا جاتا ہے تو دوسری طرف ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو ہر حال میں اپنی خواتین کی مدد کرتے ہیں۔
مردان کے علاقہ مایار سے تعلق رکھنے والے ساجد علی کو جب معلوم ہوا کہ ان کی بیوی میں کورونا وائرس کی علامات ظاہر ہوگئے ہیں تو انہوں نے فورا ان کا ٹیسٹ کیا اور ڈاکٹر کے کہنے پر انہیں آئسولیشن وارڈ میں داخل کراویا۔
‘جب میری بیوی کورونا وائرس کا شکار ہوئی تو میں نے اسے ہسپتال میں داخل کراویا اور مزید علاج کے لئے ڈاکٹروں نے اسے قرنطین سنٹر میں رکھ کر اسکا بہت اچھے طریقے سے علاج کیا ، آج میری بیوی بلکل ٹھیک ٹھاک ہے اور میں خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ اتنی خطرناک بیماری سے میری بیوی صحتیاب ہوئی ہے’ ساجد علی نے بتایا۔
ساجد نے مزید کہا کہ ہمیں چاہئے کورونا وائرس او دیگر بیماریوں کے دوران اپنی خواتین کو سپورٹ کریں اور انہیں بہتر علاج کی سہولیات فراہم کریں کیونکہ اگر ہم مردوں خود کی علاج کرتے ہیں اور خواتین کو گھروں میں بند رکھتے ہیں تو یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور اسلامی تعلیمات کی پیروی میں گناہ ہے۔