خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

بڑے برینڈز کا ریپلیکا کوئی صوابی کی جہاں آراء سے سیکھے، لیکن صلہ کون دے گا؟

 

شیبا فارس، مریم

صوابی کے علاقے ڈاگئی کی رہائشی 42 سالہ جہان آراء بڑے بڑے برینڈز کے کپڑوں کی ریپلیکا (نقل) بنانے کے لئے مشہور ہے لیکن ان کی یہ شہرت صوابی کے صرف ایک مصروف ترین مارکیٹ لینک روڈ تک محدود ہے۔ وہاں کے دوکاندار ان کو کسی بھی برینڈ کا سوٹ دکھاتے ہیں اور چند دن بعد جہاں آرا ہو بہو اسی ڈیزائن کا سوٹ انہیں تھما دیتی ہیں۔
جہاں آرا کا خیال ہے کہ یہ دوکاندار اب ان کی ہنر کی صحیح قیمت ادا نہیں کرتے ‘ میں بعض اوقات ان کے لئے ایسا لباس تیار کرتی ہوں کہ یہ دوکاندار گاہک کو دس سے پندرہ ہزار میں بھیج دیتے ہیں لیکن اس کا فائدہ مجھے کبھی نہیں ملتا، میں بعض اوقات حساب کتاب لگاتی ہوں تو 500 روپے سے زیادہ یومیہ نہیں ملتا مجھے’ انہوں نے بتایا۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ وہ یہ کام مجبوری میں کام کررہی ہیں، جب ہم تیار شدہ کپڑے بازار لے کر جاتے ہیں تو وہاں ہم سے انتہائی کم قیمت میں خریدتے ہیں اور ہمیں جو پیسے بچ جاتے ہیں تو وہ کرایہ کی مد میں خرچ ہوجاتے ہیں تو اس کا ہمیں کوئی خاص فائدہ نہیں ہورہا اور وقت تو یہ زیادہ لیتا ہے ہم گھر کے باقی کام چھوڑ کرسلائی کرتے ہیں لیکن جب پیسوں کی آجاتی ہے تو وہ ہمیں بہت کم ملتے ہیں اور مہنگائی تو بہت ہی زیادہ ہوگئی ہے۔
جہان آرا کے چھ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں جبکہ ان کا خاوند نشئی ہے اس لئے گھر کے سارے خرچے ان کے ذمے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مختلف ادارے ہوم بیسڈ ورکرز کی وجہ سے کرڑوں روپے لیتے ہیں لیکن ان لوگوں کو اج تک کچھ فائدہ نہیں ملا ہے۔
‘ہمارے لیے ادارے ایسا کچھ مقرر کرے کہ ہمیں مہینے میں کچھ مل جایا کرے تا کہ ہمارے گھر کا خرچہ اسانی سے پورا ہو کیونکہ یہ کام ہم بہت محنت سے کرتے ہیں ہمارے گھر کے کام بھی ہوتے ہیں لیکن پھر بھی وقت نکالتے ہیں جتنا وقت لگتا ہے اتنی مزدوری نہیں ملتی’ جہان آرا نے کہا۔
اگرچہ جہان آراء حکومتی اور ہوم بیسڈ ورکرز کے لیے کام کرنے والے اداروں سے امداد کا مطالبہ کررہی ہے تاہم کچھ ایسی خواتین بھی ہے جن کو نہ تو ان این جی اوز سے کچھ چاہیئے اور نہ ہی حکومت سے اور وہ باہمت خواتین کئی سالوں سے گھروں میں کام کررہی ہے اور اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پال رہی ہے۔ ایسی باہمت خواتین میں صوابی کی بخشیدہ بی بی بھی شامل ہیں۔


بخشیدہ بی بی کا کہنا ہے کہ انی شادی ٹل ہنگو میں ہوئی تھی، جس شخص سے انکی شادی ہوئی تھی اس کی عمر70 سال تھی اور ان سے اسکی تیسری شادی تھی، انہوں نے اس کے ساتھ 12 سال گزارے اس دوران انکے 8 بچے بھی ہوئے پھر انکے خاوند وفاقت پاگئے، خاوند کی وفات کے بعد نہ تو کسی نے انکے بچوں کو پالا اور نہ ہی کسی نے کوئی اور مدد کی۔
‘ خاوند کی وفات کے ایک سال بعد شیواہ آگئی اور یہاں کرائے کے ایک مکان می رہنے لگی اور ساتھ تین چار گھروں میں لوگوں کی خدمت کرنے لگی جس سے میں اپنے بچوں کا پیٹ پالنے لگی، اب میری بیٹیاں بھی بڑی ہوگئی ہے جو پڑھ بھی رہی ہے اور ساتھ میں وہ بھی میری طرح گھروں میں کام کرتی ہیں جس سے وہ اپنے تعلیمی اخراجات بھی پوری کررہی ہے’ بخشیدہ بی بی نے بتایا۔

ہوم بیسڈ ورکرز

انہوں نے کہا کہ انکے بیٹے بھی پڑھ رہے ہیں اور ایک بیٹا سکالرشپ کے ذریعے تعلیم حاصل کررہا ہے،انہوں نے بہت غربت میں وقت گزارا ہے لیکن ہمت نہیں ہاری اور جو پیسے انکو ملتے تھے اس سے کچھ بچا کے رکھتی تھی جس سے گھر کے لیے زمین خریدی ہے تاکہ انکے بچے کامیاب ہوکر اس پہ اپنا گھر بنا سکے۔

خیبر پختونخواہ میں جہان آراء اور بخشیدہ بی بی جیسی بہت سی خواتین گھروں میں کام کرتی ہیں محنت مزدوری کر رہی ہیں لیکن یہ لوگ حکومت کے ساتھ مزدوروں میں حساب ہیں اور نہ ہنرمندوں میں اور خیبرپختونخوا میں ان کے لیے آج تک کوئی قانون سازی نہیں ہوئی۔
جہان آرا۶ جیسی دوسری خاتون سلمیٰ بھی لاچاری اور غربت کی وجہ سے روزانہ کی بنیاد پر مختلف ہوٹلوں کے لیے پکوڑوں اور سموسوں کا اٹا اور مصالحہ تیار کرتی ہے اور انکو بیچ کر مزدوری لیتی ہے لیکن اتنی محنت کے باوجود اسے اس کا اتنا صلہ نہیں ملتا جتنا ملنا چاہیئے۔
سلمیٰ کا کہنا ہے کہ وہ سموسوں اور پکوڑوں کے لیے سامان جب تیار کرتے ہیں تو انکو 200 روپے مزدوری ملتی ہے جو بہت کم ہے لیکن اگر اس میں کچھ خراب ہو جائے تہ پھر ان سے مزدوری بھی کاٹ دی جاتی ہے جس سے انکو فائدے کی بجائے نقصان ہوتا ہے، انہوں نے حکومت سے گزارش ہے کہ انکے لیے کچھ تنخواہ مقرر کرے۔
ہوم بیسڈ ورکرز کے لیے بنائی گئی تنظیم کی صوبائی صدر تاجمینہ بی بی کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ پریشانی کی بات ان لوگوں کو مزدور تسلیم نہ کرنا اور ان کے لیے صوبے میں کسی قانون کا نہ ہونا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اگر ان لوگوں کو مزدور کا درجہ مل جائے تو انکے زیادہ مسائل حل ہوجائیں گے۔
‘جہاں ہمیں لگتا ہے کہ یہاں پر ہماری پالیسی کی بات ہو جائے گی یا ہوسکتی ہے تو میں وہاں جاتی ہوں، ایم پی اے یا ایم این اے کے ساتھ جب میٹینگ ہو تو میں اس حوالے سے ضرور بات کرتی ہوں اب جو ہمارے ایم پی اے زینب ہے اس نے یقین کے ساتھ ہمیں بتایا ہے کہ انشاللہ میں ضرور اس پر کام کرونگی اور ہوم بیسڈ ورکرز پالیسی کے پی کے میں بھی بہت جلد بن جائے گی’ تاجمینہ بی بی نے کہا۔
تاجمینہ بی بی کے مطابق تنظیم کے ساتھ جہان آراء اور سلمیٰ جیسی 800 ہوم بیسڈ ورکرز رجسٹرڈ ہیں لیکن اصل میں انکی تعداد ہزاروں میں ہے کیونکہ تقریبا ہرگھر میں ایسی خواتین موجود ہے جو کوئی نہ کوئی کام کررہی ہے تاہم ان کے لیے کوئی قانون نہیں ہے جس کی وجہ سے لیبر ڈیپارٹمینٹ کے ساتھ کسی قسم کی تفصیلات بھی نہیں ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button