21 سالہ لائبہ اپنے ماضی کے فیصلے پر پشیماں کیوں ہے؟
سدرہ آیان، ثنا
21 سالہ لائبہ آج جب اپنی کلاس فیلوز کو آگے جاتے دیکھتی ہیں تو انہیں بڑا رشک آتا ہے اور افسوس کرتی ہیں کہ کاش انہوں نے چوتھی جماعت میں تعلیم کو خیرباد نہ کہا ہوتا تو آج وہ بھی اپنی سہیلی کرن کی طرح میڈیکل کی طالبہ ہوتی یا مہوش جیسے سکول میں دوسرے بچوں کو پڑھاتی۔
لائبہ کا شمار اپنے کلاس کی قابل ترین طالبات میں ہوتا تھا لیکن گیارہ سال قبل ان کے والدین نے غربت کے ہاتھوں مجبور ہوکر نہ چاہتے ہوئے بھی انہیں سکول سے اٹھا لیا۔ چوتھی جماعت کے بعد پانچویں کے لئے لائبہ کو قدرے دور سکول میں جانا تھا جس کے لئے انہیں سواری کی ضرورت تھی لیکن ان کے والدین کی اتنی استطاعت نہیں تھی کہ کرایہ برداشت کرلیتے اور نہ ہی انہیں اکیلے پیدل آنے جانے کی خطرہ مول سکتے تھے۔
‘میں نے جب ابو سے دوسرے سکول میں داخلے کے لئے بات کی تو انہوں نے کہا کہ وہ دو وقت کی روٹی پیدا کرے تو بڑی بات ہے تعلیم کے اخراجات پوری نہیں کرسکتے’ لائبہ نے بتایا۔
لائبہ کے خاندان کی طرح غربت، معاشرتی اقدار، خراب تعلیمی معیار اور اس قسم کے دوسرے کئی ایک وجوہات ہیں جو طلباء و طالبات کے سکولوں سے نکلنے کے سبب بن رہے ہیں۔
2018 میں محکمہ تعلیم خیبرپختونخوا کے سالانہ اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں پرائمری سطح کے 44 فیصد جبکہ ہائی سکول لیول کے 40 فیصد بچے تعلیم کو چھوڑ رہے ہیں۔ اسی سال محکمہ تعلیم کے ایک سروے میں طلباء کے سکول چھوڑنے کے مختلف وجوہات بتائی گئی تھی جن میں جن میں سب سے زیادہ غربت، عدم دلچسپی اور سکولوں کی کمی تھی۔ سکول چھوڑنے والے بچوں میں زیادہ تر طالبات ہیں۔
ان وجوہات کے سدباب کے لئے خیبرپختونخوا حکومت نے پچھلے تین سال میں سب سے زیادہ بجٹ محکمہ تعلیم کے لئے مختص کیا ہے جن میں زیادہ سے زیادہ سکول بنانے کے علاوہ، طالبات کو زیادہ حاضری پر نقد رقوم کی ادائیگی بھی شروع کی گئی ہے لیکن زرائع کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کا کوئی خاص اثر نہیں پڑا ہے اور اب بھی تقریبا اتنے ہی فیصد طلباء و طالبات اپنے تعلیمی سلسلے کو نامکمل چھوڑ رہے ہیں۔
مردان میں اس حوالے سے اسسٹنٹ ڈی ای او مردان مسرت جبین نے ٹی این این کو بتایا کہ محکمہ تعلیم نے لڑکیوں کی تعلیم کی شرح کو بہتر کرنے کے لیے سٹائپنڈ نام پہ ایک پروگرام شروع کیا ہے جس کے تحت 80 یا 80 فیصد سے زائد حاضری پر لڑکیوں کو وطیفہ ملتا ہے اور یہ وظیفہ ہر کلاس کو مختلف دیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت انکے پاس سٹائپنڈ کے شرح کے حساب سے 61 ہزار بچیاں سکولوں میں داخل ہے، مردان میں پرائمری سکولوں کی تعداد 600 سے زیادہ ہے اسی طرح مڈل ہائی اور ہائیر سکنڈری سکولز ہمارے ساتھ 200 تک ہے اس میں تقریبآ 99 مڈل ہے اور باقی ہائی اور ہائیر سکنڈری ہے۔
سماجی کارکن سجاد کا کہنا ہے کہ مردان سمیت خیبرپختونخوا کے باقی علاقوں کے لوگوں میں لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت کے حوالے سے شعور کی کمی ہے اور بچیوں پر تعلیم حاصل نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ والدین انکی کم عمری میں ہی شادی کردیتے ہیں اور پھرسسرال والے لڑکی کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ’70 فیصد کیسز ایسے ہوتے ہیں جس میں والدین چاہتے ہیں کہ انکی بچیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرلے اور ان کا مستقبل بن جائے لیکن بدقسمتی سے جب ان کا رشتہ طے ہوتا ہے تو پھر سسرال والے ان کو پڑھنے کی اجازت نہیں دیتے، ان سے کہا جاتا ہے کہ اب یونیورسٹی یا کالج جانا بند کرو اور نوکری کرنا چھوڑ دو تو میں والدین سے درخواست کرتا ہوں کہ جب بھی اپنی بچیوں کے رشتے طے کریں تو دیکھ بال کے کریں اور اپنی بچیوں کا رشتہ ایسی جگہ طے کریں جہاں وہ خوش رہ سکیں’
ہیومن رائٹس واچ کی 2108 میں جاری ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بہت سی لڑکیاں اس وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کرسکتیں کیونکہ ملک میں سرکاری سکولوں کی قلت ہے، پاکستان میں کل آبادی (200 ملین ہے جس میں سے 5.22ملیں بچے سکول نہیں جاتے ان میں اکثریت لڑکیوں کی ہے 32 فیصد پرائمری سکول جانے والی عمرکی لڑکیاں سکول نہیں جاتی جب کہ لڑکوں کی یہ شرح 21فیصد ہے نویں جماعت تک صرف 13 فیصد لڑکیاں پڑھتی ہیں۔
سجاد علی کا کہنا ہے کہ ہم تعلیم یافتہ خواتین کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں لیکن بدقسمتی سے پھر بھی اپنی بہنوں اور بچیوں پر تعلیم حاصل نہیں کرتے۔ ‘ آج اگر ہم دیکھے تو جب ہم ہسپتال جاتے ہیں تو ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہماری خواتین کا چیک اپ خواتین ڈاکٹرز کریں یا اس کے علاوہ بھی اگر سکول کی بات کی جائے تو ہم چاہتے ہیں کہ ہماری بچیوں کو خاتون استانی پڑھائے تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب آپ اپنی بچیوں کو نہیں پڑھائیں گے تو وہ کیسے ڈاکٹرز اور استانیاں بنیں گی’
اگر ایک طرف لائبہ جیسی لڑکیاں غربت اور باقی مسائل کی وجہ سے تعلیم کو خیرباد کہہ دیتی ہے لیکن دوسری طرف کئی ایک ایسی لڑکیاں بھی ہے جنہوں نے بہت ساری مشکلات کے باوجود تعلیمی سلسلے کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ تخت بھائی کی ملیحہ بھی انہیں باہمت لڑکیوں میں شامل ہے جنہوں نے گھر کی مخالفت اور باقی مسائل کے باوجود تعلیم کو جاری رکھا ہوا ہے اور کالج تک پہنچ چکی ہے۔ ‘ہمارے خاندان میں لڑکیوں کی تعلیم کا زیادہ رواج نہیں ہے جب میں چھٹی جماعت میں پہنچی تو سب سے پہلے ہمارے خاندان میں اعتراضات شروع ہوئے کہ لڑکی ہوکر اب ہائی سکول جاوگی اور ہمارے نزدیک سکول بھی نہیں ہے تو سب کہہ رہے تھے اتنی دور کیسے جاوگی لیکن سب کے باوجود میرے والد نے مجھے سپورٹ کیا، پورے گاوں میں میں پہلی لڑکی ہوں کہ پہلے ہائی سکول شہر گئی اور اب میرا کالج شروع ہے، مشکلات بہت ہیں لیکن میں ہمت نہیں ہاروں گی اور اپنے والدین کو انکے اعتماد کا اچھا صلہ دوں گی’
ڈی ای او نے بتایا کہ جہاں تک بات ہے کہ اکثر والدین گلہ کرتے ہیں کہ سکولز بچیوں سے دور ہے تو اس کا حل انہوں نے اس طرح ڈھونڈا ہے کہ وقتا فوقتا سکولوں کو اپگریڈ کرتے ہیں جہاں پر لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اس سکول کو اس حساب سے اپگریڈ کیا جاتا ہے تاکہ لڑکیاں اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھ سکیں۔
انہوں نے کہا کہ محکمہ تعلیم مردان ضلع میں تعلیم کو عام کرنے کے لیے بھرپور کوشش کررہی ہے اور اس سلسلے میں کئی ایک اقدامات اٹھائے جارہے ہیں اور امید کی جاتی ہے مردان میں لڑکیوں کی تعلیم کی شرح مزید بہتر ہوگی۔