قبائلی نوجوان کی پولیو وائرس پر یقین کی دلچسپ کہانی
قبائلی ضلع خیبر لنڈی کوتل کا رہائشی ناظر آفریدی مقامی صحت مرکز میں موجود ہے جہاں وہ اپنی تین سالہ بیٹی کو پولیو کے قطرے پلوانے آیا ہے، ان کی بیٹی گھر گھر قطروں کے مہم کے دوران قطروں سے رہ گئی جنہیں وہ خود ہستال لے آئے ہیں۔
ناظر افریدی چند مہینے پہلے تک اپنے گھر کو پولیو ٹیم کے ورکرز کو اندر جانے بھی نہیں دیتے تھے کیونکہ وہ ہزاروں دوسرے لوگوں کی طرح اس مہم کو ایک ڈرامہ اور غیرملکی این جی اوز کا پروپیگیڈا سمجھتے تھے۔ پہلے ناظر افریدی کو پولیو سمیت کسی بھی قسم کے وائرس کا کوئی ادراک نہیں تھا اس لئے بہت آسانی سے پولیو سے وابستہ غلط فہمیوں اور غلط معلومات کا شکار ہوئے تھے۔
قبائلی نوجوان کا پولیو کے وائرس پر یقین آنا انتہائی دلچسپ معاملہ ہے۔ ان کے بقول پولیو پر ان کا یقین کورونا وائرس کے سامنے آنے کے بعد ہوا، جب انہوں نے خود لوگوں کو اس سے متاثر اور مرتے دیکھا تو انہیں وائرس کی ہولناکی کا اندازہ ہوا اور ان کے دل میں پولیو کے حوالے سے بھی ڈر بیٹھ گیا۔
‘اب میں انتہائی پچتھاوے کا شکار ہوں کہ اتنا عرصہ اپنے بچوں کو پولیو کے قطروں سے محروم رکھا تاہم ساتھ میں اپنی خوش قسمتی پر نازاں بھی ہوں کہ اللہ کے کرم سے ویکسین نہ پلانے کے باوجود گھر کا کوئی بچہ پولیو سے متاثر نہیں ہوا ہے’ انہوں نے بتایا۔
پولیو کے خاتمے کے متعلقہ اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس قبائلی اضلاع اور خیبرپختونخوا میں مجموعی طور پر 25 بچے پولیو وائرس کا شکار ہوچکے ہیں جس میں زیادہ تر وہ بچے شامل ہیں جہنیں ناظر آفریدی کی طرح والدین نے پولیو قطرے نہیں دیے ہیں۔
پاکستان اس وقت دنیا کے ان تین ممالک میں شامل ہے جہاں سے ابھی تک پولیو کا خاتمہ نہ ہوسکا۔ پاکستان حکومت صحت کے عالمی اداروں کے تعاؤن سے ملک بھر میں ویکسینیشن کے مہمات باقاعدگی سے چلا رہی ہے لیکن پچھلے ایک سال سے، جب سے کورونا وبا سامنی آئی ہیں، ان مہمات پر بھی اثر پڑا ہے۔
مارچ 2020 میں ملک بھر میں لاک ڈاؤن کے نفاذ سے پولیو کے مہمات بھی تقریبا 4 مہینے رکنے پڑے تھے جو کہ اب دوبارہ بحال ہوچکے ہیں۔
ضلع مردان میں انسداد پولیو مہم کے کوآرڈینیٹر ڈاکٹر امتیاز کہتے ہیں کہ خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں بدامنی کے دور کے بعد پولیو کیسز میں نمایاں کمی واقعی ہوئی تھی جبکہ کرونا کی وبائی لہر سے مہم میں تاخیر نے دوبارہ یہ خدشات پیدا کرلی ہیں کہ کہی آنے والے برس میں کورونا کے ساتھ پولیو کے کیسز میں اضافہ نہ ہو۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ہمیں دو چلینچز کا سامنا ہے ایک کورونا اور دوسری پولیو کیونکہ کورونا سے ہم زندگی کی بازی ہار سکتے ہیں جبکہ پولیو سے ہمارا مستقبل عمر بھر کے لئے معذور ہوسکتا ہے۔
ڈاکٹر امتیاز کے مطابق مارچ کے بعد جہاں کورونا کی لہر نے ہمیں گھیر لیا اسی دوران پولیو کے مہم بھی روک لئے گئے لیکن اسکی اہمیت کو دیکھتے ہوئے ہم نے کورونا ایس او پیز کو مدنظر رکھتے ہوئے اگست، ستمبر اور نومبر کے مہینوں میں پولیو کے قطرے پلانے کی کامیاب مہم کئے البتہ یہ خدشہ پایا جاتا ہے کہ اگر خدانخواستہ پولیو کمپائن کو مزید تاخیر کا شکاربنا دیا گیا تو یہ وائرس بچوں میں پھیل سکتا ہے کیونکہ ہمارے پانی میں پولیو وائرس کی موجودگی تاحال باقی ہے۔
ڈاکٹر امتیاز کہتے ہیں کہ کورونا آنے کے بعد پولیو مہم کو ایس او پیز کے تحت کامیاب کرانا ورکز کیلئے مشکل کام ہیں تاہم انہوں نے تمام ٹیم اوراہلکاروں کو خصوصی ٹریننگ دی ہیں.
مردان شموزئی سے تعلق رکھنے والے پولیو ورکرجاسم خان نے ڈاکٹر امتیاز کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اب انہیں بھی اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں ان کی ملاقات کورونا سے متاثرہ افراد سے نہ ہو اوراسی طرح بچوں کے والدین کو بھی یہ تشویش ہوتی ہے کہ ان کو یہ بیماری ہماری وجہ سے نہ لگ جائے کیونکہ وہ گھر گھر جا کر بچوں پولیو کے قطرے پلاتے ہیں۔
جاسم خان کہتے ہیں کہ انہیں ڈی سی کی جانب سے سخت ہدایات ملی ہیں کہ ایس او پیز کی پابندی کریں اورہر دوسرے تیسرے گھر جانے کے بعد ہاتھوں کو صابن سے دھوئیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ بچے کو ٹچ نہ کریں اور بچہ والدین کی گود میں ہی رہے اسی طرح انگلی پر نشان لگاتے وقت بھی وہ احتیاط سے کام لیتے ہیں۔
محکمہ انسداد پولیو کا موقف ہے کہ انہوں نے اپنے ورکرز کو کورونا کی وبائی صورتحال میں کام کرنے کے حوالے سے مکمل ٹریننگ دی ہوئی ہے اور دوسری لہر کے دوران پولیو مہم معطل رکھنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے.
اگر چہ کورونا وائرس کی وجہ پولیو مہم پر اثر پڑا ہے تو دوسری جانب اس وائرس نے نوزائید بچوں کو لگائی جانے والی حفاظتی ٹیکوں پر بھر برا اثر چھوڑا ہیں۔
کورونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران پشاور کےعلاقےسفیدسنگ سے تعلق رکھنے والی جان زیبا کے دل میں یہ خوف ٹھکانہ کر گیا تھا کہ ایسا نہ ہو کہ کورونا وباء کی وجہ سے ایک بار پھر لاک ڈاؤن لگ جائے کیونکہ کورونا کی پہلی لہرمیں اس کے نوزائیدہ بچے کے حفاظتی ٹیکوں کا کورس نا مکمل رہ گیا تھا اور لاک ڈاؤن کی صورت میں ایک بار پھر ایسا ہو سکتا ہے کیوں کہ حفاظتی ٹیکوں کا مرکز ان کے گھر سے تقریبا17 کلومیٹر دور ہے۔
"اس وقت ہسپتال اور آمدورفت کے ذرائع بند تھے جس کی وجہ سے ہم اپنے بچے کو وقت پر حفاظتی ٹیکے نہیں لگوا سکے لیکن جب حالات نارمل ہوئے تو ہم نے بچے کوٹیکے لگوا لیے پر کورونا کی دوسری لہر نے شدت اختیار کرلی ہے اور ہمیں اندیشہ ہے کہ دوبارہ سب کچھ بند نہ ہو ورنہ ہمارے آٹھ ماہ کے بچے کی ٹیکوں کو کورس دوبارہ ادھورا رہ جائے گا۔
محکمہ صحت کے مطابق کورونا وبا کی وجہ سے ملک بھر میں پولیو سمیت بچوں کو مہلک بیماریوں سے بچاؤ کے مہم متاثر ہو گئے تھے اور ایک اندازے کے مطابق لاک ڈاؤن کے دوران کم و بیش 7 لاکھ بچے ان بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت بڑھانے والے ضروری ویکسین سے محروم رہ گئے تھے۔
ایک جانب اگر جان زیبا سنٹر کی دوری اور ذرائع آمد ورفت بند ہونے کی وجہ سے اپنے بچے کو حفاظتی ٹیکوں کا کورس مکمل نہیں کراسکی تھی تو دوسری جانب ایسے والدین کی تعداد بھی کم نہیں ہے جنہوں نے کورونا وائرس لگنے کی ڈر سے ہسپتالوں یا حفاظتی ٹیکوں کے سنٹرز کا رخ نہیں کیا۔ انہی خواتین میں مردان سے تعلق رکھنے والی ایمان بھی شامل ہے جنہوں نے کورونا وائرس سے بچنے کے پیش نظر اپنے نوزائیدہ بچے کو حفاظتی قطرے نہیں پلائے-
“جب کرونا تھا تو میرے بچے کو ٹیکوں کی ضرورت تھی لیکن ہم ہسپتال نہیں جا سکتے حالانکہ ہسپتال کھلے تھے لیکن ہم ڈر رہے تھے کہ ہمیں خود یا ہمارے بچے کو کورونا نہ ہو جائے کیونکہ یہ بھی ایک بہت بڑا مسلہ تھا کیونکہ ہسپتال میں کورونا کے بہت سارے مریض تھے”
کورونا وباء کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہونے والے ایکسپینڈیڈ پروگرام آن ایمیونائئزيشن کے حوالے سے ای پی آئی ڈائریکٹر محمد سليم کا کہنا ہے کہ اگرچہ کورونا کی پہلی لہر نے ہمارا نقصان کیا ہے لیکن دوسری لہرکے لیے ہماری تیاریارں مکمل ہں اور تمام ایس او پیز کو مد نظر رکہتے ہوئے ہمارا کام جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ کورونا کی دوسری لہرمیں ہم نے تمام احتیاطی تدابیر اپنائی ہوئی ہیں اور اپنے تمام ٹیکنیشنز کو کہا ہوا کہ ماسک، اور سینیٹائزز کا استعمال لازمی کریں تاکہ اس وبا سے سب محفوظ رہیں، ان سب کے علاوہ کورونا وباء کی پہلی لہرمیں کچھ ایسے لوگ بھی متاثر ہوئے ہیں جن کی روزی روٹی پولیو مہم کے ساتھ جوڑی ہوئی تھی۔
ضلع ہنگو سے تعلق رکھنے والی شبنم پچھلے کئی سالوں رضا کارانہ طور پر پولیو میں ڈیوٹی کرتی تھی اور پولیو سے جو پیسے ملتے تھے ان سے وہ خود ضرورتیں پوری کرتی تھی جس میں اس کی بیماری کا علاج بھی شامل تھا۔
شبنم کے مطابق وہ اب تک کنواری ہے اور ساتھ میں انہیں سکین کی بیماری لاحق ہے جس سے وہ گھر کا کام کاج بھی نہیں کرسکتی۔
وہ کہتی ہے ان کے بھائیوں کو بھی روزگار نہیں ملتی جس کی وجہ سے وہ اپنے علاج کو خرچہ خود برداشت کرتی تھی اور لوگوں سے قرض پیسے لیتی تھی لیکن جب انہیں پولیو میں کام ملا تو وہ بہت خوش تھی کیونکہ پولیو سے ملنے والے پیسوں سے انہوں نے اپنا علاج کروایا بلکہ وہ گھر کا خرچہ بھی برداشت کرنے لگی۔
شبنم کا کہنا ہے کہ ان کی زندگی خوشیوں کی جانب گامزن تھی لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے ان کی خوشحال زندگی کو نظر لگ گی اور پولیو مہم متاثر ہونی کی وجہ سے ان کی نوکری چلی گی اور وہ گھر بیٹھنے پر مجبور ہوگی۔
وہ کہتی ہے جب انہیں گھر جانے کا کہا گیا تو وہ راستے میں بہت روئی کیونکہ انہیں فکر تھی کہ بے روزگاری کی وجہ سے وہ اپنے علاج کا خرچہ کیسے برداشت کرئے گی وہ اعلی تعلیم یافتہ بھی نہیں ہے اور نہ ہی وہ معاشرے کی ڈر کی وجہ سے دوسری جگہ نوکری کرسکتی ہیں بس افسوس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔
اس سٹوری کے لیے ضلع خیبر سے محراب آفریدی، پشاور سے سینا نعیم اور اورکزئی سے سی جے تارا اورکزئی نے معلومات فراہم کی ہے۔