بلاگزخیبر پختونخواماحولیات

دو ایسے درخت جو 24 گھنٹے آکسیجن پیدا کرتے ہیں

تحریر:سعد سہیل

درخت لگانا رواج تھا، اب ضرورت ہے مگر کسی کو خیال نہیں ارادہ نہیں جذبہ نہیں، درخت لگانا صدقہ جاریہ ہے اگر درخت کم ہوں گے تو بارشیں بھی کم ہوگی اور موسم کی شدت بڑھے گی درخت لگانا جہاں تک گرمی کے اثر کو ختم کرتا ہے وہی آپ کے شہر، گاؤں سیر گاہوں اور گھروں کی خوبصورتی میں بھی اضافہ کرتا ہے.
نیم اور پیپل دو ایسے درخت ہیں جو 24 گھنٹے آکسیجن پیدا کرتے ہیں. اس کے علاوہ باقی درخت دن کو آکسیجن اور رات کو کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا کرتے ہیں اس بنا پر ڈاکٹر حضرات رات کو درخت کے نیچے سونے سے منع کرتے ہیں. دوسری خوبی ان درختوں میں یہ ہے کہ نیم اور پیپل دونوں ہوا میں موجود ہر قسم کی پلوشن یعنی انسان کو نقصان پہنچانے والی تمام گیسوں مثلاً کاربن ڈائی آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ،سلفر اور امونیا وغیرہ ایسے تمام کیسوں کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو مختلف کیمیائی کھادوں اور کیڑے مار ادویات کی صورت میں فضا میں موجود ہوتی ہیں.

پی ٹی آئی کے سابقہ دور میں بھی ماحول کو خوشگوار بنانے کیلئے بلین سونامی ٹری پروجیکٹ شروع کیا تھا جس کے دور رس اثرات نے ماحول پر انتہائی خوشگوار اثرات مرتب کیے اس لیے اب کی بار بھی وفاقی حکومت کی جانب سے ملک بھر میں 2 دسمبر کو پلانٹ فار پاکستان کے طور پر منایا گیا. پلانٹ فار پاکستان کے تحت وزیراعظم پاکستان نے پورے ملک میں 10 ارب درخت اور پودے لگانے کا آغاز کیا ہے جو 2018 سے شروع ہوا اور 2023 تک مکل ہو گا.

ڈیرہ اسماعیل خان میں دسمبر2015 سے 2019 تک 4کروڑ پلانٹیشن ہو چکی ہیں جن میں شیخ بدین، کلاچی پروا، پہاڑپور وغیرہ کے علاقے شامل ہیں، (ڈی اف او) شاہد نور کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان اور اس کے اردگرد تقریبا پچاس لاکھ سے زائد درخت ابھی لگائے جا چکے ہیں۔
مٹی ہر علاقے کی مناسبت سے تبدیل ہوتی ہے ڈیرہ اسماعیل خان کی مٹی دریائے سندھ کی وجہ سے زرخیز ہے جو پودوں اور درختوں کے لئے موضوع ہے درابن، کلاچی، ٹانک کی طرف مٹی سخت ہے جب کہ پہاڑ پور اور ڈیرہ اسمعیل خان کی طرف دریائی اور ریتلی مٹی ہے جو مجموعی طور پر زرخیز ہے . ہر علاقے میں پودے زمین کی مناسبت سے لگائے جاتے ہیں جس میں ششم، پیپل، نیم وغیرہ میدانی علاقوں میں جبکہ سوئیدار، فائل، یوکلپٹس چلغوزہ سنتھا اور کالا زیتون پہاڑی علاقوں میں لگائے جاتے ہیں. ایک پودے کو آٹھ سے دس سال چاہیے ہوتے ہیں درخت بننے کے لیے اور یہ بھی علاقے اور مٹی پر مبنی ہوتا ہے ایک پودے کو لگانے کے لئے بہار اور مون سون کا موسم بہترین ہوتا ہے.
شجرکاری مہم میں ہمیں لوگوں میں زیادہ سے زیادہ پودے اور درخت لگانے کی اہمیت کا شعور اجاگر کرنا چاہیے تاکہ وہ حکومت کے گرین پاکستان منصوبے کے تحت زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں جو کہ کارخیر بھی ہے اور ہمارے ملکی زرمبادلہ میں بھی فائدہ مند بھی.

ڈیرہ شہر میں بڑھتی آبادی کی وجہ سے کس طرح درخت اور پودے اس شہر سے ناپید ہوتے جارہے ہیں اور یہ دائرے میں سرکلر روڈ کے اندرون شہر کا حصہ ہے۔

درخت اس کائنات کا حسن تو ہیں لیکن انسانی زندگی کے لئے یہ قدرتی فلٹریشن پلانٹ ثابت ہوتے ہیں ہمیں اپنے اپنے حصے کی شجرکاری مہم میں حصہ لے کر گھر کے ہر فرد کے نام کا ایک ایک پودا لگانا چاہیے۔
درخت زمین کا زیور ہے ہمیں لوگوں میں یہ شعور پیدا کرنا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ درخت اور پودے لگائے اور اپنے گھر، گلی محلے اور اسی طرح اپنے شہرو ملک کو خوشگوار اور خوبصورت بنائے.
آئیے ماحول کو بھی خوشگوار بنائے، شجرکاری ایک قومی فریضہ ہے اس کو عوامی طور پر سمجھ لینا چاہیے کہ یہ کسی محکمے یا فرد کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہر شخص اس میں حصہ ڈالے کیونکہ ماحول سب کا ہے.

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button