پشاور کی عائشہ کی زندگی میں کورونا نے مثبت تبدیلی لائی ہے
سینا نعیم
کورونا وبا کی وجہ سے جہاں ایک جانب بے شمار لوگ اپنے موجودہ روزگار میں نقصان سے دوچار ہوئیں یا چند ایک افراد روزگار سے محروم ہوگئیں وہاں کچھ لوگوں نے اس دوران اپنے کاروبار میں جدت لاتے ہوئے انہیں مزید وسعت دے دیں۔
ایسے افراد میں پشاور کی عائشہ خان بھی شامل ہیں جو کہ پہلے پشاور صدر میں اپنے گھر میں خواتین کے کپڑے اور دیگر سامان فروخت کرتی تھی اور اس کے ساتھ بازار میں کسی اور کے دوکان میں ایک ریک بھی کرائے پر لیا تھا اور بہت چھوٹی سطح پر یہ روزگار کرتی تھی لیکن جیسے ہی لاک ڈآؤن کی وجہ سے لوگ گھروں میں محصور ہوگئے تو عائشہ نے ان تک پہنچنے کے لئے اپنے کاروبار کو آنلائن پلیٹ فارم پر منتقل کردیا۔ عائشہ کہتی ہے کہ پہلے کی نسبت اب ان سے دو گنا زیادہ سامان خریدا جاتا ہے۔
‘اب گاہک زیادہ ہو گئے ہیں کیونکہ ان کو بھی آسانی ہے ان کو گھر پر ہی چیز مل جاتی ہے وہ ادائیگی کر دیتے ہیں اور مطمئن ہو جاتے ہیں کیونکہ ہم گاہک سے پیسے سامان کی ترسیل اور ان کے اطمینان کے بعد ہی وصول کرتے ہیں’ عائشہ نے کہا۔
کورونا سے پہلے جب سب نارمل تھا تو میں نے صدر میں ایک شاپ میں ایک ریک لیا تھا اور اپنے کپڑوں کی ساری ورائٹی میں وہاں رکھتی تھی- لیکن جیسے ہہی کورونا ذیادہ ہوا تو میں نے گھر پر بھی لوگوں کا آنا جانا بند کر دیا اور شاپ پر ڈسپلے بھی ہٹا دیا-”
کورونا وبا کے دنوں میں جہاں بزنس کو کافی نقصان پہنچا وہاں آن لائن کاروبار متعارف ہوا اور ایک طرف انسانی زندگی اور صحت کے لیے نقصان کا سبب بنی ہے تو دوسری طرف اسی وبا کے نتیجے میں لگنے والی لاک ڈاؤن اور پابندیوں سے پشتون معاشرے میں کئی مثبت تبدیلیاں بھی آئی ہیں- ان تبدیلیوں میں سے ایک پشتون معاشرے میں آن لائن کلچرکا تعارف بھی ہے- اگرچہ انٹرنیٹ کے ذریعے روزمرہ کی ضرورتیں پوری ہونا کوئی نئی بات نہیں لیکن آج دیکھا جائے تو یہ کلچر لوگوں کے درمیان روابط سے بڑھ کر آن لائن مارکیٹنگ، کاروبار، کلا سز ، دفتری میٹنگز کا ایک کارآمد ذریعہ بن چکا ہے-
پشاور کے ایک سماجی کارکن اور آن لائن مارکیٹنگ کے ماہر شفیق گیگیانی آن لائن کلچر کو پشتون معاشرے کے لیے ایک مثبت قدم قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ نوجوانوں کو یہ کلچر اپنانا چاہیۓ، اس سیکٹر کو جتنی ترقی دے سکتے ہیں دینی چاہیے کیونکہ آنے والا وقت اسی کا ہے اور جوانوں کو بھی چاہئے کہ اپنے لیے اسی میں روزگار تلاش کریں –آن لائن ہی اپنے لیے کوئی کام ڈھونڈ لیں کیونکہ آنے والا دور آن لائن کا ہے۔
کورونا وبا کے ساتھ اگر ایک طرف آن لائن کاروبا کو فروغ ملا ہے تو دوسری طرف لاک ڈاون کی وجہ سےخریدارو بھی آن لائن خریداری کی طرف راغب ہوئے ہیں- ان میں سے ذیادہ تر گاہک آن لائن شاپنگ کو وقت کی بچت اور تکلیف سے بچنے کا تسلی بخش ذریعہ بتاتے ہیں- لیکن بعض خریدار آن لائن خریداری سے مطمئن نہیں۔
پشاور کی ندا خان کہتی ہیں کہ جو تسلی دوکان جا کر خریدنے سے ہوتی ہے وہ آن لائن ذریعے سے چیزیں منگوانے سے نہیں ہوئی- ” جیسا کہ اب کورونا بہت ذیادہ ہو گیا ہے تو وہ آن لائن شاپنگ کرنے پر مجبور ہیں –
انہوں نے کہا کہ ہر کسی کا آن لائن شاپنگ کا اپنا تجربہ ہے لیکن انکا ذاتی تجربہ کچھ بہت اچھا نہیں ہوا- اس میں بہت فراڈز بھی ہو رہے ہیں- سکرین پر جو چیز نظر آتی ہے سامنے آنے پر وہ ویسی نہیں ہوتی- بہت سائٹس قابل بھروسہ بھی ہونگی لیکن پھر بھی کبھی رنگوں میں فرق ہوتا ہے اور کبھی کوالٹی اچھی نہیں ہوتی آن لائن شاپنگ سے تسلی نہیں ہوتی۔