خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویوکورونا وائرس

کرونا وبا نے بچوں کو تعلیم سے دور کردیا

 

رضوان محسود
شاہ زیب سکول جانے کے شوقین بچوں میں سے ایک تھا جسے ہرشام کو دوسرے صبح کا انتظارہوتا تھا کہ کب صبح ہو اور وہ سکول جاسکے لیکن جب کرونا کی وبا نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو شاہ زیب بھی دیگر طلبہ کی طرح گھر بیٹھ گیا اس دوران بوریت کا خاتمہ کرنے کے لئے اس کی موبائل فون گیمز میں سے پب جی سے دوستی ہوگئی اور اب وہ پب جی میں کھو کر سکول کو بھول چکا ہے، وہ اب سکول جانا نہیں چاہتا۔
ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والا شاہ زیب ان ہزاروں بچوں میں سے ایک ہے جو کئی ماہ تک گھر رہے اورکرونا کی وبا کی وجہ سے گھر سے باہر نہ جاسکے اس دوران وہ کسی دوست سے بھی نہ ملے اوران کی دنیا ایک موبائیل فون میں سمٹ کر آگئیں اب سکول تو دور کی بات وہ تو دوستوں کے پاس بھی کھیلنے نہیں جاتا۔ کرونا کے کم ہونے کے بعد اب اس علاقے کے والدین اپنے بچوں کو سکول بھیجنا چاہ رہے ہیں لیکن یہ والدین اب اس لئے بھی پریشان ہیں کہ ان کے بچے سکول جانے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں لے رہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان جو کہ خیبر پختون خواہ کا وہ ضلع ہے جسکی سرحدیں دوسروں صوبوں کے ساتھ ملتی ہیں کو اس لئے بھی اہمیت حاصل ہوئی کہ کووڈ 19شروع ہوتے ہی صوبے کا سب سے بڑا قرنطینہ سنٹر بھی اسی ضلعے میں قائم کیا گیا تاکہ بلوچستان کے راستے پڑوسی ملک ایران سے آنے والے زئراین میں اس بیماری کی تشخیص کی جا سکے جس کے لیئے گومل میڈیکل کالج کواس سنٹر میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ ایک سروے کے مطابق اس ضلعے کی آبادی سولہ لاکھ سے زائد افراد پر مشتمل ہے۔کورونا وبا کو روکنے کے لیئے یہاں پر خاطر خواہ اقدامات کیئے گے تھے۔
ڈپٹی کمشنر محمد عمیر کے مطابق ہم فرنٹ لائن کا کردار ادا کررہے تھے اور ایران کی سرحد تافتان کے راستے پاکستان آنے والوں کو یہی چیک کرکے ان میں سے متاثرین کا یہی علاج کرنا مقصود تھا تاکہ یہ وائرس باقی صوبے میں نہ پھیل سکے وہ کہتے ہیں ایسا کرنے سے ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے اور نہ صرف اسی ضلعے کو بچایا بلکہ وائرس کو یہی پر روک لیا ضلعے میں دو کورنٹائن سنٹرگومل میڈیکل کالج اور درہ زندہ ٹائپ ڈی ہسپتال سنٹر بنائے گئے جن میں ایران سے آنے والوں کو رکھا گیا۔
ضلع کی اس خصوصی حالت اوراس ساری صورتحال کے بچوں پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں ماہر نفسیات ڈاکٹر منیر داوڑ سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ویسے تو کورونا مرض کی وجہ سے زیادہ بچے متاثر نہیں ہوئے البتہ جو بچے پہلے سے گھبراہٹ کی بیماری کا شکار تھے ان پر کچھ اثر پڑا تھا لیکن اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب وہ بھی معمول کی زندگی کی جانب آرہے ہیں۔ ڈاکٹر منیر داوڑ کہتے ہیں کہ کرونا ختم ہونے کے بعد بچوں کو سکول بھیجنے میں بہت احتیاط کرنی ہوگی کہ اب جب سکول کھل گئے ہیں تو بچوں کو پیار سے سکول بھیجیں کیونکہ اگر والدین سختی کریں گے تو بچے مزید چڑ چڑا پن کا شکار ہوجائیں گے۔ انکا یہ بھی کہنا ہے کہ چونکہ سابقہ قبائلی اضلاع میں جو کہ دہشت گردی کی وجہ سے متاثرہوئسے اب کورونا انکے لیئے دورسرا متحان تھا ۔تو حکومت کو چاہیئے کہ ان ہسپتالوں میں ایک ذہنی افادیت سنٹر کا قیام ضروری ہے کیونکہ ضم شدہ اضلاع میں کوئی ایسا کونسلنگ سنٹر موجود ہیں ہے اور افسوس کی بات ہے کہ اگر ان اضلاع میں کسی کو ذہنی تکلیف ہو تو وہ صوبے کے دوسرے اضلاع کا رخ کرتے ہیں میرے پاس اکثر دور دراز علاقوں جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیرستان سے مریض ڈیرہ اسماعیل خان آتے ہیں کیونکہ انکے اپنے ضلعے میں کوئی سائکالوجسٹ نہیں ہے ۔قیوم جو ایک پرا ئیوٹ سکول کی پرنسپل کی حیثیت سے کام کررہے ہیں کہتے ہیں ۔ہمارے لیئے شاید مشکل مرحلہ ہو کہ کورونا کے بعد بچوں کو ک اس بیماری سے بچاو کے حفاظتی اقدامات پر عمل کرائیں ۔کیونکہ بچوں کے ہاتھ تو دھلاوا لیں گے لیکن شاید سماجی فاصلہ رکھنے کی شرط کو قبول نہ کرسکیں انکو اس بارے قائل کرنا شاہد کچھ وقت لگ جائے ۔محکمہ تعلیم کے مطابق ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں 985 سرکاری سکول ہیں جن میں 29 ہائر سکینڈری سکول ،79 ہائی ،115مڈل جبکہ 722 پرائمری سکول ہیں جن میں ڈیڑھ لاکھ طلبا ءزیر تعلیم ہیں ۔مسرت حسین جوکہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر (مردانہ ) ہیں کہتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے جاری کی گئی ایس اوپیز کوسکولوں میں نافذ کرنے کے لیئے ہم نے میٹنگ بلائی جن میں تعلیمی اداروں کے سربراہان نے شرکت کی اس میں انکو یہ بتایا گیا کہ بچوں کو اس مرض سے بچانے کے لئے کیا کچھ ہمیں کرنا چاہئے۔ میں خود مختلف سکولوں کے دورے کر رہا ہوں اسی طرح کلاسوں میں طلباءکی تعداد کو تقسیم کر دیا ہے ۔ہاتھ دھونے کے لیئے صابن پانی اور سیناٹائرز بچوں کو سکولوں میں مہیا کیئے جارہے ہیں بچوں کو ماسک لگانے کے بارے میں کہتے ہیں تاکہ اس بیماری کوروکا جا سکے ۔اس کے ساتھ ساتھ ہم نے کلاسوںکے درمیان تفریح کا موقع بھی ختم کر دیا ہے تاکہ بچوں کا جمگٹا نہ بنے ۔اس حوالے سے اساتذہ کو بھی تربیت دی گئی کہ بچوں کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ کیسے کنٹرول کرنا ہے ۔طلبا ءکی دوبار سکول آمد کے حوالے سے خصوصی کمپین چلائی گئی جو سکول کی سطح پرکمیٹیاں بنائی گئی ہیں اور ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی پیغام دے رہے ہیں تاکہ انکے والدین یابچے کورونا بیماری کی ڈر کی وجہ سے کہیں سکول آنے سے انکاری نہ ہوجائیں ۔ڈاکٹر قمر نساءجو کہ چلڈرن اسپشلسٹ ہیں کہتی ہیں کے کورونا پریڈ کے دوران کورونا بیماری کے علاوہ بھی بچے متاثر ہوئے ہیں کیونکہ گھر میں رہنے کی وجہ سے کھیل کود میں صحیح حصہ نے لینے کی وجہ سے انکی جو نشوونما کا جوعمل ہے وہ رک سا گیا ہے کیونکہ وہ زیادہ تر ٹائم دوسرے کھیلوں کے بجائے موبائل ،لیپ ٹاپ اور ٹیبلٹ پر گیم کھیل کر گزارتے چھوٹے بچوں کی بڑھوتری کا یہ سٹیج ہوتا ہے دوسری بات یہ کہ جیسے کہ بڑے افراد ماسک سے تنگ آگئے تھے اسی طرح بچے بھی بڑوں کی وجہ سے ماسک تو لگالیتے لیکن گھٹن محسوس کرتے ۔اس کے ساتھ یہ کہ جو حفاظتی ٹیکہ جات تھے وہ بھی بچوں کو نہیں لگ پائے۔ڈاکٹر قمر نساءمزید کہتی ہیں کہ لاک ڈاون کی وجہ سے اکثر بچوں کی خوراک پر برا اثرا پڑا ہے کیونکہ جن بچوں کے والدین کی کم انکم تھی تو وہ بچوں کو کھانا کھلانے پر اکتفا کرتے یعنی فروٹس یا دوسری غذائی چیزیں انکے قوت خرید سے باہر ہوگئیں تو وہ نہیں لے سکتے تھے ۔اسی طرح جو روز کے کمانے والے تھے تو بڑوں کی کم یا آمدنی نہ آنے کی وجہ سے اثر بچوں پر بھی پڑا۔سیدہ انجم جو کہ زنانہ سکولوں کی انچارج ہیں بہت پرامید ہیں کہتی ہیں کہ ایک لمبے عرصے بعد تعلیمی سلسلہ شروع ہو گیا ہے ۔ ڈائریکٹریٹ کی جانب سے جو ہدایات دی گئی ہیں اُن پر میں اور میرے تما م سکولوں کا سٹاف عمل کررہا ہے۔ان کامزید کہنا ہے کہ ہم نے محکمہ صحت کوبھی خط لکھا ہے۔تاکہ ہمیں بتا دیں کہ کس علاقے میں ابھی کورونا کے اثرات موجود ہیں ۔لیکن اب میڈیکل ٹیمیں مختلف سکولوں میں جاکر ٹیسٹ لے رہے ہیں ۔جہاں کوئی مریض سامنے آتے ہیں تو اس ادارے کو سیل کر دیتے ہیں ۔اسی طرح بچو ں کو سکول لانے کے لیئے موٹیویشنل کلاسز بھی شروع کی ہیں تاکہ اُن کا دوبارہ سے سکول میں دل لگے ۔ڈاکٹر فاروق گل ڈپٹی ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسرجو ضلع میں کورونا وائرس کے تشخیصی عمل کے انچارج ہیںکے گھروالوں کو یہ خدشہ تھا کہ کہیں دوسرے کورونا مریضوں کا علاج کرتے کرتے یہ خود اس بیماری کا شکار نہ ہوجائیں ڈی ایچ او کے مطابق ابتدا میں کورونا مریض کے پاس جانا اور اس کے سمپل لینا مشکل عمل سمجھا جاتا تھا لیکن ہم نے ہمت نہیں ہاری دن رات ایک کرکے اپنی اس ڈیوٹی کو بخوبی سرانجام دی کیونکہ اگر ہم بھی پیچھے ہٹ جاتے تو شاید یہ مرض پھیل جاتا اور کئی لوگوں کی جانیں چلی جاتی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button