پروفیسر ڈاکٹر مہجور، جن کی علم کی آنکھ بھی بینا ہے اور پیار و محبت کی بھی!
عثمان خان
بدقسمتی سے آج کل شدت پسندی اور انتہاپسندی کو تو بہت آسانی کے ساتھ مذہب کے ساتھ جوڑا جاتا ہے جبکہ مذہب کی اصلی روح جس کا تعلق انسانیت اور تمام خلق خدا سے پیار و محبت کا ہے، وہ نظروں سے اوجھل ہے۔ ان تمام صورتحال اور سوچ کے پنپنے کے ذمہ دار وہ اہل علم ہیں جن کی پیار و محبت کی انکھ اندھی ہوتی ہے، یا وہ صوفیاء کرام ہیں جن کی پیار و محبت کی آنکھ تو سلامت ہوتی ہیں لیکن علم کی آنکھ پر دیکھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔
ایسے حالات میں ہمارے ساتھ پشتونوں میں ایک شخصیت پروفیسر ڈاکٹر مہجور صاحب کا ہے جن کی دونوں آنکھیں بینا ہیں ان کی علم کی آنکھ بھی بینا ہے اور پیار و محبت کی بھی۔
اس تناظر میں پشتونوں کو روحانی شخصیات کی بہت ضرورت ہے کیونکہ مذہب ہمیں جنگ کی صورت میں پیش ہوا ہے۔
تصوف جیسے مشکل موضوع پر لکھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں، اور پھر اگر میں پشتو ادب میں دیکھوں تو تصوف پر انگلیوں کی گنتی کے برابر لوگوں نے کام کیا ہے لیکن بہت عمدہ اور اعلیٰ و ارفع۔
آج ہم ایک ایسے دانشور، محقق، شاعر اور روحانی تصوف کے ایک ایسی شخصیت کا تذکرہ کریں گے اور آپ کو لوگوں سے ان کی ملاقات کرائیں گے جو نہ صرف تصوف بلکہ روخانی تحریک جیسے عرف عام روشانی تحریک سے پہچانا جاتا ہے تفصیل کے ساتھ گفتگو کریں گے۔
وہ باکمال پشتوں شخصیت پروفیسر ڈاکٹر پرویز مہجور خویشگی ہیں، جہنوں نے اپنی ساری زندگی اس پاک کام میں صرف کی اور اب انتہائی علیل اور عمر رسیدہ ہونے کے باجود تن من دھن سے آبیاری کر رہے ہیں۔
تعلیمی پس منظر
پروفیسر ڈاکٹر پرویز مہجور کا اپنا نام پرویز خان ہے اور آپ ضلع نوشہرہ کے علاقے خویشکی سے تعلق رکھتے ہیں، آپ کے والد بزگوار کا نام زرین ہے، آپ کی تاریخ پیدائش 14-1-1952 ہے۔
پروفیسر پرویز مہجور صاحب نے دسویں تک تعلیم اپنے ابائی علاقے خویشگی بالا سے حاصل کی ہے۔
اس کے بعد ایف اے کی تعلیم آپ نے 1971 میں نوشہرہ کے سرکاری ڈگری کالج سے پاس کیا ہے اور اس کے بعد بی اے، ایم اے پشتو اور ایم اے اردو کی اسناد آپ نے پرائیویٹ حیثیت سے جامعہ پشاور سے اعلی پوزیشن میں حاصل کی ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر پرویز مہجور نے پی ایچ ڈی کی ڈگری جامعہ پشاور سے حاصل کی ہے جس میں آپ نے روحانی شخصیت ارزانی خویشگی کے دیوان پر مقالہ لکھا ہے جو کہ آپ کے قبیلے سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔
پروفیسر پرویز مہجور کی ادبی خدمات
پروفیسر ان شخصیات میں شامل ہیں جنہوں نے 1969 میں پشتو ادبی ٹولنہ خویشگی کی بنیاد رکھی، مرحوم ملک شیر علی خان بابا، اخون میر حسن احسن بابا، پروفیسر عبداللہ قانت، فرہاد محمد غالب ترین، گوہر علی گوہر اور ولی خان خاکسار جیسے ادب کے درخشندہ ستاروں کے ساتھ ڈاکٹر پرویز مہجور نے اپنی ادبی تگ و دو جاری رکھی اور اس کے ساتھ ہی مہجور صاحب نے "د ارزانی پشتو ادبی جرگہ” کے نام سے ادبی تنظیم کو متحرک رکھا۔
ابتدا میں پرویز مہجور صاحب نے سرکاری سکول کے استاد سے مدرس کا پیشہ اختیار کیا اور پہلی تعیناتی آپ کی نوشہرہ کے علاقے مصری بانڈہ میں ہوئی اور اس کے بعد اپنے گاؤں کے سرکاری سکول میں اورینٹل ٹیچر کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھائیں لیکن یہاں صرف ایک سال دو لئے کیونکہ اللہ تعالی نے آپ کو ایک اور اعلی کام کیلئے تخلیق کیا تھا۔
1988 میں پشاور یونیورسٹی کی پشتو اکیڈمی میں آپ کو بحیثیت جونئیر ریسرچ آفیسر کے نوکری ملی اور جنوری سال 2002 میں ریسرچ آفیسر پوسٹ پر آپ نے مسلسل چودہ سال تک کام کیا جس کا تذکرہ آج ہم کریں گے کہ کتنا نادر کام اللہ نے آپ سے لیا۔
اس کے بعد آپ جامعہ پشاور کے پشتو ڈیپارٹمنٹ سے منسلک ہوئے ایسوسی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے اور بالا آخر دو ہزار گیارہ میں فل پروفیسر ریٹائرڈ ہوئے۔
تحقیقی کام پر ایک نظر
پروفیسر پرویز مہجور کے تحقیقی کاموں میں پشتو اکیڈمی کے تحقیقی مجلے ‘پشتون’ سال 1982 تک امیر حمزہ خان شنواری ‘د حمزہ د حسن نظریہ’ تیس تحقیقی مقالے، رحمان بابا کی شاعری میں تفکر کا مقام، اس مضوع پر مقالہ جو کہ اشاعت کے مرحلے میں ہے، اس کے علاوہ رحمان بابا کی شاعری میں ‘د زلفو معنی او مراد؛ اس عنوان پر مقالہ جو کہ ملاکنڈ یونیورسٹی کے تحقیقی مجلہ ‘پلٹنہ’ میں شائع ہوا ہے۔
محولہ بالا مقالوں کے علاوہ اور مقالے بھی پشتو ادبی مجلوں میں شائع ہوئے ہیں جیسا کے مردان میں تاترہ، پشاور ‘رحمان ریویو’ خال (کوئٹہ) اور ماہانہ رسالوں میں کاظم خان شیدا کے فکر اور فن پر، تصوف، ہندی سبک، روخانی مکتب فکر، شریعت اور طریقت، سوانح نگاری، انشاء اور املا، حسن اور عشق، رحمان بابا اور بہت سے موضوعات پر علمی اور تحقیقی مقالاجات مختلف ادوار میں لکھے ہیں۔
ابھی تک پشتو ادب میں بیس سے زیادہ پی ایچ ڈی اور ایم فل سکالرز کی رہنمائی فرمائی ہے اور ان کے تحقیقی موضوعات پر مقالوں کی تکمیل میں نگرانی کی ہے۔
تدوین اور تحقیق کے کام میں پروفیسر پرویز مہجور نے بارہ کتابیں لکھی ہیں جن میں شاد محمد کا دیوان، ‘د پختو ژبہ’ ڈاکٹر خیال بخاری کے ساتھ اشتراک میں، علی محمد مخلص کا دیوان تدوین، تحقیق اور تصحیح، ‘د ارزانی خویشکی کلیات’ پی ایچ ڈی تحقیقی مقالہ، ‘د مرزا خان انصاری دیوان تحقيق او تصحيح’ اور ان کے علاوہ روشانی تصوف پر تحقیق جو کہ پشتو اکیڈمی سے شائع ہوئی ہے۔
‘رحمان فن اور شخصیت’ اکادمی ادبیات اسلام آباد، بچوں کے روایتی گیت اور گھریلو صنعتیں جو کہ پشتو اکیڈمی پشاور اور لوک ورثہ اسلام آباد کے اشتراک سے شائع ہوئی ہیں۔
اور حال ہی میں واصل روخانی کے دیوان کی تدوین، تحقیق اور تصحیح پشتو اکیڈمی کوئٹہ بلوچستان کی جانب سے اشاعت کے آخری مراحل میں ہے۔
سید الامین آمین خویشگی کے ساتھ اپنے ایک انٹریو میں پروفیسر پرویز مھجور نے کہا کہ پشاور سے تعلق رکھنے والے دانشور، محقیق، ادیب ھمیش خلیل صاحب کے دیوانوں نے مجھ میں تحقیق کی تحریک پیدا کی ہے اور اس وجہ سے میں ریسرچ کی جانب مبذول ہوا۔ میرا خیال تھا کہ میں امیر حمزہ خان شنواری، غنی خان پر کام کروں گا لیکن استاد آصف صمیم صاحب نے فرمایا ‘خدا خبر کہ اور کوئی پیدا ہو جائے اور روخانیوں پر کام کرنے کیلئے تو تم ان پر کام کرو اور میرا بھی شوق تھا روخانیوں پر کام کرنے کا، ان کے خیال کے مطابق روشانیوں میں سب میں خیالات کے لحاظ سے ایک دوسرے پر سبقت تھی، ارزانی میں بایزید کا پورا فلسفہ، علی محمد مخلص میں ابن عربی کے افکار، مرزا خان انصاری میں کامل شریعت اور واصل میں ان سے زیادہ شریعت نظر میں آتی ہے۔
مھجور صاحب پرانے شعراء میں رحمان بابا سے متاثر ہیں اور ان کی شاعری رومانیت اور تصوف کی وجہ سے پسند کرتے ہیں، ان کے خیال میں اشرف خان ھجری تصنع نہیں ہے اور جب ان کو دیکھتا ہوں تو اس میں گم ہو جاتا ہوں۔
قلندر مومند، ھمیش خلیل، دوست محمد خان کامل اور بہت ساروں نے کہا ہے روخانیوں پر اور کام ہونا چاہیے ان کی تلاش چاہیے کہ ان کی فکر پر کام کیا جائے۔
حمزہ شنواری کی نظم ‘جونگڑہ’ کے حوالے سے آپ بتاتے ہیں کہ اس میں وحدت الوجود، جمالیات، رومانیت اور فنا موجود ہے اور غنی خان میں صوفیانہ فکری مواد بھی موجود ہے۔
پروفیسر پرویز مھجور صاحب بتاتے ہیں کہ بچپن میں دریاؤں اور صحراؤں کے رومانس نے میری طبیعت اور ذہن سازی کی تھی میرا اپنا تخیل رومانی ہے اور اپنے کام سے مطمئن ہوں اور اگر اللہ تعالی نے صحت عطا کی تو اور بھی کام کروں گا۔
ارزانی خویشگی، مرزا خان انصاری، علی محمد مخلص اور واصل روخانی کی زندگی، افکار اور ریسرچ کے علاوہ پرویز مھجور صاحب نے روخانی مکتب فکر اور اس مکتب کے صوفیانہ افکار کی تعبیر اور تشریح کیلئے ‘روخانی تصوف’ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے جو کہ پشتو تصوف کی تاریخ میں نیا اضافہ ہے۔
یہ کتاب روخانی مکتب کی تعلیمات کی تعبیر اور استنباط کی نئی راستیں دکھلاتی ہے اور روخانی تصوف کے مشکل مقامات میں توصیح میں بہت مدد کرتی ہے۔
پرویز مھجور صاحب نے اس کتاب میں 268 صالحین، مفسرین، متصوفین او اولیائے کرام کے اقوال نقل کئے ہیں اور اکساٹھ مستند کتابوں سے استفادہ کیا ہے، اس طرح سے آپ ہندوستان، افغانستان، ایران اور سنٹرل ایشیاء کے ملکوں میں روخانی مکتب فکر میں ایک مستند حوالہ اور منبع ثابت ہوتے ہیں۔
پروفیسر پرویز مہجور کے حوالے سے محقیقن دانشور اور ادیبوں کے تاثرات
پروفیسر نصراللہ جان وزیر (ڈائریکٹر پشتو اکیڈمی پشاور)
ڈاکٹر پرویز مہجور صاحب کے ساتھ میرا تعلق بہت نزدیک رہا ہے، جب میں کوئٹہ سے پشتو اکیڈمی آیا تو ڈاکٹر صاحب ریٹائرڈ ہوئے تھے لیکن ان کا اکیڈمی آنا جانا رہتا تھا۔
پروفیسر صاحب بنیادی طور ایک بہترین محقق ہیں اور پھر ان کی فیلڈ آف سپشلائزیشن تصوف اور تصوف میں روخانی تصوف ہے۔
موجودہ وقت میں اگر تصوف یا روحانی تصوف پر کوئی شخصیت ملکہ رکھتی ہے تو وہ شخصیت پرویز مہجور خوشگی ہیں۔
میرے بحیثیت ڈائریکٹر پشتو اکیڈمی ان کی ایک بہترین کتاب شائع ہوئی ‘روحانی تصوف’ اس کتاب کے شروع میں ہے کہ تصوف کیا چیز ہے اور پھر اس کتاب کے آخر میں روخانی تصوف کے آٹھ مقامات کا تفصیل کے ساتھ ذکر اور ان کی تربیت کا کیا طریقہ کار تھا، بتایا ہے۔
پروفیسر نصراللہ جان وزیر کے مطابق روخانیوں کے حوالے سے اخوند درویزہ کے جو تاثرات تھے یا ان کے اعتراضات تھے ان سب کے جوابات ڈاکٹر پرویز مہجور نے ریسرچ کے طریقہ کار کے سانچے کے اندر انتہائی مدلل انداز میں دیئے ہیں۔
پرویز مہجور صاحب کے مطابق روخانیوں نے کبھی اپنی کتابوں میں اخوند درویزہ یا اخونیانو کا ذکر نہیں کیا ہے، اور بعد میں بایزید انصاری کے مریدوں اور خلفا نے اپنی تحریرو میں ذکر کیا ہے۔
اس مد میں ڈاکٹر پرویز مہجور نے ایک نیا اینگل نکالا ہے اور بتایا ہے کے ہو سکتا ہے کہ اخوند درویزہ کے پردہ ہونے کے بعد ان کے بچوں یا مریدوں کی جانب سے ان کی کتابوں میں ٹمپرنگ کی گئی ہو۔
اگر ہم جائزہ لیں کہ جو کام افغانستان اور یہاں خیبر پختونخواہ میں روحانی تصوف پر ہوا ہے سب کو جمع کر کے ان پر ڈاکٹر پرویز مہجور کا پلڑا بھاری ہے اور کام بھی مستند ہے۔
نور الامین یوسفزی (شاعر، محقق، استاد، نقاد)
اگر موجودہ وقت میں جینوئن ریسرچر کی نشاندہی کریں جو کہ ایک خاص نظریہ بھی رکھتے ہوں تو ان چار پانچ شخصیتوں میں ایک پروفیسر پرویز مہجور بھی ہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے خصوصی طور پر روحانیوں پر کام کیا ہے اور پھر خود بھی جتنا تصوف کو جانتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ خود بھی ایک روحانی شخصیت رکھتے ہیں۔
میں یہ بات دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کے بایزید انصاری اور مرزا خان انصاری کا اس دور میں تسلسل کو دیکھنا ہو تو وہ پرویز مھجور صاصب ہیں۔
نور الامین یوسفزئی کے مطابق روخاني تحريک کی اساس میں قوم پرستی ہے اور انداز اس کا روحانی ہے اس لئے یہ تحریک روحانی انداز میں تھا۔
امجد علی خادم ( صحافی، مصنف)
پروفیسر پرویز مہجور صاحب ادب کی دنیا میں درخشندہ ستارے ہیں جو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے اور ممالک میں بھی لوگ ان کی ادبی خدمات کی وجہ سے مانوس ہیں، ان کے مطابق ڈاکٹر صاحب کی علمی تحقیق کی وجہ سے روخانی ادب چمکا ہے۔
پشتو ادب کے طالبعلموں کیلئے انتھک کام سرانجام دیئے ہیں، جامعہ پشاور سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی پرویز مہجور صاحب آرام سے نہیں بیھٹے، پاچا خان یونیورسٹی چارسدہ میں آپ نے اپنا رسرچ کا کام کو جاری رکھا ہے۔ آج کل ڈاکٹر صاحب بیمار ہیں اور ایک نجی ہسپتال میں ان کا علاج ہو رہا ہے تو دعا ہے کہ اللہ پاک پرویز مہجور صاحب کو صحت کاملہ عطا فرمائے کہ وہ پشتو کے لئے اپنا نادر کام جاری رکھ سکیں۔ آمین!