خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

بونیر کی خواتین شعراء اپنے کلام نام کے بغیر شائع کروا رہی ہیں

سلمان یوسفزے

بونیر میں پشتو زبان کے شعراء کے ادبی تنظیم ‘سالار پختو ادبی ٹولنہ’ کے زیر اہتمام "ځلنده سالار” کے نام سے  شاعری کی کتاب شائع ہوئی ہے۔ اس تذکرہ٭ (کتاب) جس میں پہلی بار مرد شعرا کے ساتھ دو خواتین شعراء کی شاعری کو بھی شامل کیا گیا ہیں تاہم حیران کن طور پر کتاب میں خواتین کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی ہیں۔

سالار پختو ادبی ٹولنہ کے رکن اور سابقہ صدر انعام الھادی کے مطابق ځلنده سالار میں بونير کے 47 شعرا کے کلاموں کو شائع کیا گیا ہیں جس میں خواتین ، نوجوان اور وہ شعرا شامل ہیں جو وفات پاچکے ہیں۔

ٹی این این سے بات کرتے ہوئے ہادی نے بتایا که پچھلے کئی سالوں سے ہماری تنظیم کی یہ خواہش تھی کہ کیوں نا ہم بونیر کے نامور شعرا کی سوانح حیات کے ساتھ ان کی شاعری کو ایک کتابی شکل دے، بس اسی سوچ او جذبے کو آگے لیکر ہم نے تذکرہ شائع کیا۔

ہادی کے مطابق يه ايک مشکل لیکن ممکن کام تھا کہ ہم نے ایک ایسے قدامت پسند معاشرے میں خواتین کی شاعری کو کتاب کا حصہ بنایا جہاں ادب سے وابسطہ مرودں کو بھی عجیب سی نظروں سے دیکھا جاتا ہیں۔ انہوں نے خود تسلیم کیا کہ یہ ایک عجیب سی بات ہے کہ جن خواتین کی شاعری کتاب میں شائع ہیں انکی شناخت کو خفیہ رکھا گیا ہیں۔

‘ہماری خواہش تھی کہ خواتین کی شناخت کو ظاہر کیا جائے جس سے ان کی حوصلہ افزائی ہو لیکن خواتین کی طرف سے اجازت نہ ملنے کی وجہ سے ہم نے مجبورا انکی شاعری کو مخفف ناموں سے شائع کیا ہیں’ انہوں نے کہا۔

ہادی کا کہنا تھا کہ ایک اندازے کے مطابق ضلع بونیر تحصیل سلازرئی میں تقریبا 12  سے زائد خواتین ادب سے وابسطہ ہیں اور وہ باقاعدہ طور پر شاعری کرتی ہیں لیکن سماج کی ڈر اور روایت کی پابندیوں سے وہ خود کی شناخت ظاہر کرنے سے ڈرتی ہیں۔

ہادی کے بقول انہوں نے مختلف ذرائعوں سے ان خواتین تک پہنچنے کی کوشش کی ہے لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے اور انہیں صرف دو خواتین شعرا کی شاعری ہاتھ آئی جسے ان کی اجازت پر تذکرہ میں شائع کیا گیا ہے۔

اس حوالے سے پشتو اکیڈمی کی سابقہ ڈائریکٹر سلمیٰ شاہین کا کہنا ہے کہ یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا کہ خداداد صلاحتیوں کے باجود پشتون معاشرے کی عورت اپنی شناخت ظاہر کرنے سے کترائے۔ اس سے پہلے بھی ادب کے میدان میں نامور خواتین شعرا نے اپنی شناخت ظاہر نہیں کی ہیں۔

کتاب میں خواتین کے اصل ناموں کی جگہ ان ناموں کے مخفف لکھے گئے ہیں

ٹی این این سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے یہ رجحان زیادہ تھا اور گھریلوں پابندیوں کی وجہ سے عورت کو محکوم رکھا جاتا تھا لیکن آج کے کل دور میں کچھ حد تک  معاشرے نے عورت کو قبول کرلیا ہے اور وہ بااختیار ہوگئی ہیں۔

ان کے بقول اگر معاشرہ بینک میں کام کرنی والی عورت ، ڈاکٹر او نرس کو قبول کرسکتی ہے تو انہیں چاہیے کہ وہ شاعرہ کو بھی قبول کرلے کیونکہ معاشرے کو یہ بات تسلیم کرنا ہوگا کہ شاعر اور ادیب کبھی بھی پوشیدہ نہیں رہ سکتا، چاہے وہ کتنا ہی معاشرے کی نظروں سے اوجھل ہوجائے ایک دن اسکی آواز دنیا تک پہنچے گی اور وہ اپنی صلاحتیوں کی وجہ سے اپنی پہچان بنائے گا۔

ڈاکٹر سلمیٰ شاہین کے مطابق پشتون معاشرے میں غیرت، عزت اور اس طرح دیگر طریقوں سے خواتین کی صلاحتیوں کو قتل کیا جاتا ہے ،کوئی یہ ماننے کو تیار ہی ہیں کہ عورت بھی انسان ہے ان کے بھی فطری اور نسوانی جذبات ہوتے ہیں۔

وہ کہتی ہے کہ پشتون معاشرے میں خواتین کو بہت سی تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اگر وہ ان تکالیف کو شاعری، موسیقی یا ٹپہ کی شکل میں بیان کرے تو اس میں کیا حرج ہے؟

پشتو ادب میں سب سے زیادہ ٹپے خواتین نے بنائی ہیں جس میں انہوں نے انتہائی احسن طریقے سے اپنے درد اور تکالیف کا اظہار کیا ہیں۔

 

٭تذکرہ: پشتو ادب میں وہ کتاب جس میں زیادہ شعراء کے کلام شائع ہوئے ہو اسے تذکرہ کہتے ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button