خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

کیا غیرت کے نام پر قتل ہونے والے لڑکے لڑکی کا کفن اور جنازے کا بھی حق نہیں تھا؟

خالدہ نیاز

‘کسی کو بغیر جنازے اور کفن کے دفنا دینا یا ویسے ہی چھوڑ دینا انسان کی توہین ہے کیونکہ انسان اشرف المخلوقات ہے، پہلی بات تو یہ ہے کہ اسلام میں کسی گناہ پر کسی کو قتل کرنے کی اجازت نہیں ہے اور پھر اگر کوئی کسی کو قتل بھی کر دے تو اس کو اس کی توہین کی اجازت بھی اسلام نہیں دیتا،’

یہ کہنا ہے مفتی ضیا اللہ شاہ کا جو پشاور کے علاقے دیر کالونی مسجد میں خطیب کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ یہ وہی کالونی ہے جہاں دو ہفتے قبل مبینہ طور پر غیرت کے نام پر نوجوان لڑکی اور لڑکے کو قتل کرنے کے بعد  رات کی تاریکی میں بغیر جنازے کے دفنائے جانے کا انکشاف ہوا ہے تاکہ جرم کو چھپایا جا سکے۔

یہ واقعہ دو جولائی کو پیش آیا تھا۔ واقعے کی ایف آئی آر کے مطابق لڑکی اور لڑکے کو ان کے رشتہ داروں نے ’غیرت کے نام‘ پر قتل کر کے بغیر جنازہ پڑھائے پشاور کے رحمان بابا قبرستان میں دفنا دیا تھا۔ ایف آئی آر کے مطابق لڑکی کو ان کے والد جبکہ لڑکے کو چچا نے دیگر رشتہ داروں کے ایماء پر اپنے ہی گھر میں قتل کیا۔

مفتی ضیا اللہ شاہ نے کہا کہ اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کسی کو انفرادی طور پر غیرت کے نام پر قتل کر دیا جائے، اگر کسی اسلامی ملک کا بادشاہ، خلیقہ وقت یا باقی ذمہ دار افراد کسی کے قتل کا حکم دے دیں تو وہ پھر الگ بات ہے۔

2010 سے 2019 کے دوران صرف خیبرپختونخوا میں 475 خواتین اور 361 مردوں کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق اپر دیر میں 76، صوابی میں 66، پشاور میں 53 اور سوات میں 44 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔

مفتی ضیا اللہ شاہ نے کہا کہ جب کوئی انسان مرجاتا ہے یا کوئی اس کو ماردیتا ہے تو دوسروں پر لازم ہوتا ہے کہ وہ انکے کفن دفن، غسل اور جنازے کا اہتمام کریں گے کیونکہ اسلام میں جنازہ فرض کفایہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وسائل کے باوجود کسی کا جنازہ نہ کرانا اور اس کو کفن نہ دینا گناہ کبیرہ میں شامل ہے اور گناہ کبیرہ کی توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوتی۔

پاکستان میں ’غیرت کے نام‘ پر ہر سال درجنوں کیس سامنے آتے ہیں اور اس جرم میں زیادہ لڑکی یا لڑکے کے رشتہ دار ملوث ہوتے ہیں اور عموما ان کو قتل کئے جانے کے بعد انکی لاشوں کو یا تو دریا میں بہا دیا جاتا ہے یا پھر کسی ویرانے میں پھینک دیا جاتا ہے۔ پولیس کے مطابق عموما ملزمان اپنے جرم کو چھپانے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔

مفتی ضیا اللہ شاہ نے کہا کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر5 حقوق ہوتے ہیں جن میں ایک سے ایک یہ ہے کہ رشتہ دار مرنے والے شخص کے غسل اور کفن دفن کا انتظام کریں اور اس کے جنازے میں شرکت کریں۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو بغیر جنازے اور کفن کے چھوڑ دیں تو روز قیامت وہ انسان متعلقہ لوگوں سے اپنے حق کا مطالبہ کرے گا۔

2016 میں ماڈل قندیل بلوچ کو غیرت کے نام پر قتل کئے جانے کے بعد اس موضوع پر کافی بحث دیکھنے کو ملا جس کے بعد قومی اسمبلی اور سینیٹ نے غیرت کے نام پر قتل کے قانون میں ترمیم پر پیش کردہ بل کی منظوری دے دی۔ ترمیم کے بعد مجرم کو موت کی سزا پر معافی ملنے کی صورت میں بھی عمر قید کی سزا کا سامنا ہو گا۔

سابقہ قانون میں جو ترمیم کی گئی ہے، اُس کے مطابق غیرت کے نام پر قتل کے مجرموں کو سخت سزاؤں کا سامنا ہو گا۔ مجرم کو دی گئی موت کی سزا کو اگر مقتولہ کے خاندان والے معاف بھی کر دیں گے تو اُسے پچیس برس کی عمر قید ہر صورت میں بھگتنا ہو گی۔

دوسری جانب خواتین کے حقوق پر کام کرنے والی ایڈوکیٹ پشاور ہائی کورٹ مہوش محب کاکاخیل کا کہنا ہے کہ اسلام اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کسی کو بغیر جنازے کے یونہی پھینک دیا جائے اور پاکستان میں جتنے بھی قوانین بنے ہیں وہ اسلامی قوانین پرہی مبنی ہے۔

غیرت کے نام کسی کو قتل کرنے کی کیا سزا ہے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے خیبر پختونخوا میں ویمن لاء اینشی ایٹیو کی سربراہ مہوش محب کاکاخیل نے بتایا کہ اس کا ذکر پاکستان پینل کوڈ میں موجود ہے، اگر کوئی کسی کو غیرت کے نام پر قتل کرتا ہے تو اس پہ دفعہ 302 عائد ہوتا ہے جس کے تحت عمر قید یا پھانسی کی سزا ہوسکتی ہے یا 14 سال قید کی سزا بھی مجرم کو دی جاسکتی ہے۔

دو روز قبل مانسہرہ کی وادی کاغان میں بھی لڑکے اور لڑکی کی لاشیں برآمد ہوئی تھی، پولیس کے مطابق دونوں آپس میں رشتہ دار تھے اور پسند کی شادی کرنا چاہتے تھے تاہم خاندان والوں نے ان کو فائرنگ کرکے قتل کردیا۔

انہوں نے بتایا کہ انکے پاس کچھ کیسز ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں سے کسی کو غیرت کے نام پرقتل نہیں کیا گیا ہوتا تو ایسے کیسز جن میں ملزم معافی کے قابل ہوتا ہے اور اگر دونوں فریقین کے درمیان راضی نامہ ہوجائے تو پھر سزا کم ہوسکتی ہے۔

مہوش محب کاکاخیل نے بتایا کہ اگر کوئی کسی کا جنازہ نہیں کراتا تو اس حوالے سے پاکستان میں کوئی قانون موجود نہیں ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button