خیبر پختونخوا

کان حادثے میں معذور ہونے والے شانگلہ کے حسین علی آجکل کیا کرتے ہیں؟

سی جے طارق عزیز

شانگلہ کے اکثر لوگوں کا رزق کوئلہ کے سخت کام سے وابستہ ہے۔ کوئلہ کان میں آئے روز حادثات سے ہر سال درجنوں قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں اور اگر خوش قسمتی سے کسی حادثے میں کوئی زندہ بچ بھی جائے تو معذوری اس کی زندگی بھر کا مقدر بن جاتی ہے۔

ان ہی نوجوانوں میں شانگلہ کے علاقے بیلے بابا کے رہائشی حسین علی بھی ہیں جو 2016 میں کوئلہ کان کے ایک حادثے میں ریڑھ کی ہڈی ہر چوٹ کی وجہ سے وہیل چیئر پر چل رہے ہیں۔

انہوں نے معذوری کے باوجود ہمت نہیں ہاری اور دو دن پہلے اپنے گھر میں منیاری اور کپڑوں کی دکان شروع کی ہے۔ ان کا کہنا ہے، "میرے ساتھ جو سرمایہ تھا وہ تقریباً 4 سالوں میں ختم ہو گیا اب میں نے یہ دکان شروع کر دی ہے کیونکہ دوسروں کی محتاجی سے بہتر ہے کہ بندہ اپنا کوئی دھندا کرے۔”

حسین علی نے معذوری کو اپنی کمزوری نہیں بنائی اور اپنے گھر کی تعمیر کے دوران لکڑی کا سارا کام بھی انہوں نے خود کیا۔

حسین علی کہتے ہیں کہ وہ فراغت کے وقت میں گاؤں کے بچوں کو مفت میں پڑھا بھی رہے ہیں اور اس کام میں انہیں نہ صرف سکون ملتا ہے بلکہ غریب اور یتیم بچے جو سکول کے خرچے برداشت نہیں کر سکتے مفت میں کچھ سیکھ بھی لیتے ہیں۔

"ان بچوں میں کچھ تو ایسے ہیں جو سکول جاتے ہیں اور بعد میں ٹیوشن کیلئے آتے ہیں لیکن سکول دور ہونے کی وجہ سے بعض بچیاں ایسی بھی ہیں جو سکول نہیں جا سکتیں اور یوں ان کی پڑھائی جاری رہتی ہے۔

شانگلہ میں تقریباً ڈیڑھ سو لوگ ایسے ہیں جو کوئلہ کان میں پیش آنے والے حادثے کی وجہ سے مستقل طور پر معذور ہو کر چارپائی پہ پڑے ہوئے ہیں۔

واضح رہے کہ شانگلہ کا اکثریتی حصہ پہاڑوں پر مشتمل ہے اور صرف 32 فیصد قابل کاشت زمین کی وجہ سے کاشتکاری پر بھی گزر بسر ناممکن ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں کے نوجوان جب جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں تو کوئلے کی کانوں میں مزدوری ان کا انتظار کررہی ہوتی ہے جہاں سے اکثر اوقات ان کا جنازہ واپس آتا ہے۔

قابل افسوس امر یہ ہے کہ 2000 سے 2018 تک شانگلہ کے تین ہزار سے زائد مزدور جاں بحق ہو چکے ہیں لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔2000 سے 2018 تک شانگلہ کے تین ہزار سے زائد مزدور جاں بحق ہو چکے ہیں لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی الٹا مزدوروں کے حقوق اور ریلیف کے ذمہ دار محکمہ اور لیبر یونین کے عہدیدار سارے ٹھیکیدار بھی ہیں اور دودھ کی رکھوالی بلی سے کروانے کا نتیجہ واضح ہے کہ وہ کسی صورت نہیں چاہتے کہ مزدور کو کوئی فائدہ ملے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button