کورونا وباء، گھر بیٹھے مرد، بچوں اور خواتین پر اثرات
عثمان خان
پشاور کے شہری علاقے رشید گڑھی کا رہائشی 55 سالہ جہانریز خان کو کورونا وائرس وباء کی وجہ سے پیدا شدہ حالات نے یکسر بدل دیا ہے۔ جہانریز خان میڈیسن کے کاروبار سے وابستہ ہیں لیکن حالات کی وجہ سے ان کے دل میں اتنا خوف بیٹھ گیا ہے کہ اب خود اپنے کمرے سے باہر نکلتے ہیں نہ ہی بیوی بچوں اپنے کمرے میں آنے کی اجازت دیتے ہیں۔
جہانریز خان کی بھتیجی روبینہ خان کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس پھیلنے کے بعد ان کے چچا کے دل میں یہ خوف بیٹھ گیا تھا کہ چونکہ وہ دل کے عارضے میں مبتلا ہیں تو آسانی سے اس کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ‘میرے والد چونکہ آج کل بہت بیمار رہتے ہیں تو میرے چچا اور ان کے چھوٹے بھائی ایک گھر میں ہوتے ہوئے بھی ان کی عیادت کے لئے نہیں آتے بلکہ روزانہ فون کال پر ان کی خیریت دریافت کرتے ہیں۔’
ماہرین نفسیات جہانریز کے رویے کو زیادہ ذہنی دباؤ کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان مسائل کا بروقت علاج بہت ضروری ہوتا ہے۔
دسمبر میں چین کے شہر ووہان سے پھیلنے والے کورونا وائرس سے دنیا بھر میں اب تک ایک کروڑ 15 لاکھ سے زائد افراد متاثر اور ساڑھے 5 لاکھ سے زائد ہلاک ہوئے ہیں۔ یہ وائرس دنیا کے 216 ممالک تک پھیل گیا ہے۔
یورپی ممالک کے لئے عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے علاقائی ڈائریکٹر ڈاکٹر ہنس ہنری پی کلگ کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے پھیلے ڈر، خوف اور ذہنی دباؤ جیسے مسائل قدرتی ہیں اور تقریباً ہر انسان میں اس بدلتے اور غیریقینی صورتحال کی وجہ سے کچھ نہ کچھ تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنی زندگی اور اردگرد تیزی سے پھیلنے والے دباؤ سے کس طرح پیش آتا ہے اور خود کو کیسے منظم رکھتا ہے۔
مردان میڈیکل کمپلکس میں فرائض سرانجام دینے والے ڈاکٹر اعزاز جمال بھی اس بات سے متفق ہیں اور کہتے ہیں کہ نفسیاتی اور ذہنی مسائل تو ہر انسان کے ساتھ ہیں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس مسئلے کو کس طرح ڈیل کرتے ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں نوجوان سائیکاٹرسٹ نے کہا کہ موجودہ حالات میں جسمانی صحت کے ساتھ کے ساتھ ذہنی صحت پر بھی توجہ دینا چاہیے اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو ڈھیر سارے مسائل سے دوچار ہو جائیں گے جس کا قوی امکان موجود ہے۔
ڈاکٹر اعزاز جمال بتاتے ہیں کے کرونا وباء کے دوران نفسیاتی مسائل کی بہت سی وجوہات ہیں جیسا کہ لوگوں نے حد سے زیادہ اس وائرس کو اپنے ذہنوں پر سوار کیا ہے جس سے مسائل جنم لے رہے ہیں، اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کرونا ایک خطرناک مرض ہے جس کا ابھی تک علاج دریافت نہیں ہوا ہے لیکن اس مرض سے زیادہ تعداد میں مریض شفایاب بھی ہو رہے ہیں، لیکن وہ افراد جن کی عمر یادہ ہے اور دل، گردوں اور شوگر جیسے عارضوں میں پہلے سے مبتلا ہیں ان کو احتیاط سے کام لینا چاہیے۔
ڈاکٹر اعزاز جمال کہتے ہیں کہ کورونا وباء کے باعث پیدا شدہ مختلف صورتحال مختلف لوگوں پر مختلف طرح سے اثر انداز ہوتی ہے۔
لاک ڈاؤن، بے روزگاری اور ورک فرام ہوم کے ذہنوں پر اثرات
پاکستان میں عوامی آراء جاننے کے حوالے سے معروف ادارے گیلپ کے نئے سروے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کورونا کی وجہ سے ملک میں 54 فیصد تنخواہ دار طبقہ متاثر ہوا ہے، 27 فیصد بے روزگار ہو گئے ہیں جبکہ 27 فیصد کی تنخواہوں میں کٹوتی کی گئی ہے۔
ڈاکٹر اعزاز جمال کہتے ہیں کہ چونکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے کئی لوگ بے روزگار ہوئے اور کئی اوروں کو گھروں سے کام کرنے کی ذمہ داری دی گئی تو مرد اس قسم کی تبدیلی کے لئے ذہنی طور پر تیار نہیں تھے۔ اب جب وہ اچانک اپنے گھروں میں محصور ہو گئے تو ایک طرف تو بے روزگاروں کو روزگار کی فکر ستا رہی ہے جبکہ دوسری طرف گھر میں کام کرنے والوں کو دفتر کا ماحول نہیں مل رہا تو وہ لوگ تنگ آ گئے ہیں۔ یہ لوگ ڈپریشن کے شکار ہوئے ہیں اور اس کے ساتھ چڑچڑاپن، اداسی، خود کو گنہگار ٹھہرانے جیسے مسائل سے دوچار ہیں، اور اس کے ساتھ گھریلو جھگڑوں میں بھی کافی حد تک اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔
اسی طرح بچوں کا بھی تعلیمی سلسلہ رک گیا ہے اور وہ گھروں میں محصور ہو گئے ہیں، سکول نہ جانا، دوستوں سے ملنا جلنا ختم یا کم ہونا بھی بچوں کے ذہنوں پر اثرات مرتب کر رہا ہے۔
بچوں پر اثرات
بچوں کے لئے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے بھی لاک ڈاؤن کے بچوں پر اثرات کے حوالے سے ایک تحقیقی رپورٹ شائع کی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کورونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن میں خاندانوں کا ایک ساتھ زیادہ وقت گزارنے کے دوران بچوں اور خواتین پر تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔
مئی میں شائع رپورٹ کے مطابق پچھلے مہینے ایک سے لے کر 14 سال تک کے ہر دس میں سے آٹھ بچوں پر گھروں میں ذہنی یا جسمانی تشدد کیا گیا ہے۔ اسی طرح 2 سے 4 سال کے درمیان تین چوتھائی بچوں کو اپنے ہی گھروں میں جسمانی سزا دی گئی ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 19 فیصد شادی شدہ خواتین کو بھی اپنے ساتھی کی جانب سے جسمانی تشدد یا جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے اور موجودہ بحران کے دوران خواتین پر اس قسم کے تشدد کے واقعات میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔
ڈاکٹر اعزاز جمال کہتے ہیں کہ بچوں پر تشدد کا ان کے ذہنوں پر بھی بہت منفی اثر پڑتا ہے جس سے نہ صرف ان کی تخلیقی صلاحتیں متاثر ہوتی ہیں بلکہ رویے میں بھی منفی تبدیلی آ جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہی مسئلہ خواتین کے ساتھ بھی ہے۔
کورونا وباء کے دوران حاملہ خواتین کے نفسیاتی مسائل الگ قسم کے ہیں
قبائلی ضلع خیبر کے ڈوگرہ ہسپتال میں کلینیکل سائیکالوجسٹ کے طور پر کام کرنے والی عرشی ارباب کہتی ہیں کہ مشاہدے اور کئی سرویز سے یہ تو واضح ہے کہ ہمارے معاشرے میں کورونا وباء کے دوران مردوں کے مقابلے میں خواتین کو زیادہ نفسیاتی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لیکن اس معاملے میں سب سے بڑا اور نظرانداز کردہ پہلو حاملہ خواتین کا ہے۔ ان خواتین کو دیگر خواتین کے برعکس زیادہ نفسیاتی مسائل کا سامنا ہے لیکن بدقسمتی سے اس معاملے پر بہت ہی کم بات ہوتی ہے۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر عرشی ارباب نے بتایا کہ کورونا وباء کے دوران حاملہ خواتین کے نفسیاتی مسائل کی کسی کو فکر نہیں کہ ان پیچیدہ حالات میں کون سے نفسیاتی مسائل سے گزر رہی ہیں۔ ایسی خواتین میں ہارمونز کی تبدیلی پہلے ہی ان کے نفسیات پر اثرانداز ہوتی ہے لیکن جب ہارمونز کی ان تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ انہیں ڈر، خوف، ناامیدی اور غیریقینی صورتحال کا سامنا ہو تو نہ صرف ان کی اپنی شخصیت بلکہ ہونے والے بچے پر بھی بہت ہی خراب اثرات پڑتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کورونا وباء کے حوالے سے افواہیں یہ مسائل مزید گھمبیر بنا دیتی ہیں۔
انہوں نے قبائلی اضلاع کے حوالے سے اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ آج کل خواتین بچے کی پیدائش کے وقت ہسپتال نہیں جاتیں کیونکہ یہ افواہ زیر گردش ہے کہ ہسپتال میں لوگوں کو زہر کا ٹیکہ لگایا جاتا ہے۔
کلینیکل سائیکالوجسٹ کے مطابق کرونا وباء کے دوران نفسیاتی مسائل اور ڈپرشین کی وجہ سے بہت سی خواتین کے حمل ضائع ہو رہے ہیں، اور بہت سی خواتین ایسی بھی ہیں جن کے وقت سے پہلے بچے پیدا ہو گئے جن میں سے کئی ایک کی پیچیدگیوں کی وجہ سے موت بھی واقع ہوئی ہے۔
‘اس کے علاوہ کبھی کبھار کچھ حاملہ خواتین ہم سے یہ مشورہ بھی کرتی ہیں کہ میں بچہ پیدا نہیں کر سکتی اور ابورشن کرنا چاہیتی ہوں کیونکہ اس ٹینشن کے حالات میں وہ بچے پیدا کرنے اور ان کی پرورش کی سکت نہیں رکھتیں۔ ایسی خواتین زیادہ تر پڑھی لکھی بھی ہوتی ہیں۔’ ڈاکٹر عرشی نے کہا۔
کورونا سے متعلق افواہوں کا ذہنی صحت پر اثر
دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی کورونا سے متعلق افواہیں مسلسل پھیلتی رہتی ہیں۔ جس طرح ڈاکٹر عرشی نے ہسپتالوں میں زہر کے انجکشن کا ذکر کیا اسی طرح دیگر چند اور افواہیں بھی بہت گردش کر رہی ہیں جن میں حکومت کی جانب سے کورونا متاثرین کی تعداد بڑھا چڑھا کر پیش کرنا، دیگر بیماریوں سے مرنے والوں کو کورونا میں شمار کرنا تاکہ بیرونی امداد لی جا سکے اور کئی لوگوں کی جانب سے کورونا وائرس کے وجود ہی سے انکار کرنا شامل ہیں۔
ڈاکٹر عرشی کہتی ہیں کہ یہ تمام افواہیں ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں۔ انہوں نے اس حوالے سے اپنے ساتھ پیش آنے والے ایک واقعے کا ذکر کیا ‘تحصیل باڑہ کے کورونا آئسولیشن وارڈ میں ایک سولہ سالہ لڑکا جو کہ کورونا سے متاثر تھا، چوبیس گھنٹے سے نہیں سویا تھا۔ ہمیں یہ کیس رپورٹ ہوا تو جب بچے سے ہسٹری لی گئی تو اس نے بتایا کہ اگر وہ سو گیا تو ڈاکٹر اسے زہر کا انجکشن لگا دے گا۔ وہ بچہ مسلسل رو رہا تھا اور وقت گزرنے کے ساتھ اس کی طبیعت مزید خراب ہوتی جا رہی تھی۔ مجھے اس بچے کے دل سے یہ افواہ نکالنے اور اسے مطمئن کرنے کے لئے بہت محنت کرنی پڑی لیکن بالاخر کامیاب ہو گئی’۔
ڈاکٹر عرشی ارباب کے مطابق پشاور کے جہانریز خان بھی شائد انہیں افواہوں کی وجہ سے ذہنی و نفسیاتی مریض ہو گئے ہیں۔
جہانریز کی بھتیجی کا کہنا ہے کہ اصل میں ان کے چچا دل کے عارضے میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اپنی صحت کے بارے میں حد سے زیادہ فکرمند ہو گئے ہیں جس نے ان کے ذہن پر بھی اثرات چھوڑے ہیں۔ ‘چند دن پہلے ہی میرے چچا نے گھر میں کہا کہ انہیں کورونا ہو گیا ہے، نہ تو ان میں کچھ علامات ظاہر ہوئی تھیں اور نہ ہی انہوں نے ٹیسٹ کروایا تھا لیکن ان کے ذہن میں آیا کہ شائد انہیں کورونا ہو گیا ہے تو اپنے خیال کو حقیقت سمجھ بیٹھے اور اپنے کمرے سے تمام سامان نکلوا دیا اور خود کو قرنطین کر دیا۔’
روبینہ نے کہا کہ ان کے چچا کا زیادہ تر وقت ٹی وی کے سامنے گزرتا تھا یا اخبار دیکھا کرتے تھے لیکن جب ہمیں ایسے لگا کہ شائد حد سے زیادہ خبریں دیکھنے کی وجہ سے ان کی حالت خراب ہوئی ہے تو ہم نے انہیں یہ عادات چھوڑنے پر مجبور کیا جس کے فوری اور حوصلہ افزاء نتائج برآمد ہوئے۔
زیادہ خبریں دیکھنے اور سننے کے ذہن پر اثرات
ماہر نفسیات اعزاز جمال سمجھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں کورونا سے متعلق ڈر اور خوف کی بڑی وجہ حد سے زیادہ خبریں دیکھنا اور سننا ہے۔
‘ہمارے ٹی وی چینلز، اخبارات اور سوشل میڈیا کورونا سے متعلق خبروں سے بھرے پڑے ہیں، ایک اچھا خاصا صحت مند انسان بھی روزانہ دن کا زیادہ تر وقت کورونا متاثرین، ان کے صحت کے مسائل اور اموات کی خبریں دیکھنے میں گزارے تو اس پر اتنا اثر پڑتا ہے کہ وہ جہانریز خان کی طرح خود کو بیمار تصور کرتا ہے۔ زیادہ تر لوگوں کو انہی خبروں کی وجہ سے ڈپریشن کا مرض لاحق ہو گیا ہے جس کو ہم عام زبان میں زندگی سے بیزاری کہتے ہیں۔ دیگر نفسیاتی و ذہنی مسائل کی بھی بڑی وجہ یہی حد سے زیادہ خبروں کا دیکھنا اور سننا ہے۔
کورونا کو سماجی بدنامی سمجھنے کا نتیجہ کیا ہے؟
دنیا بھر میں کورونا وائرس کے متاثرین جہاں اس وائرس کو روکنے کے لئے خود کو یا تو گھروں میں الگ تھلگ کر لیتے ہیں یا قرنطینہ مراکز منتقل ہو جاتے ہیں وہاں خیبر پختونخوا سمیت پاکستان کے کئی علاقوں میں چند ایک ایسے کیسز بھی سامنے آئے ہیں کہ کورونا مریض اس وائرس کو بدنامی سمجھ کر چھپانے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر اس حوالے سے غیرذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
اس حوالے سے پشاور میں کچھ عرصہ پہلے ایک واقعہ پیش آیا جب ایک معروف خاتون براڈکاسٹر نے سوشل میڈیا پر آ کر پشاور کے پولیس سروسز ہسپتال کی انتظامیہ پر کورونا مریضوں سے خراب رویے کے الزامات لگائے تو ہسپتال انتظامیہ نے ان الزامات پر اپنا وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ خاتون کا اپنا کورونا ٹیسٹ مثبت آ چکا ہے لیکن ڈاکٹر کے مشورے اور ایس او پیز کے مطابق گھر پر الگ تھلگ ہونے کی بجائے اپنے خاندان کے دیگر لوگوں کے ساتھ بغیر کسی احتیاطی تدابیر کے وہ دوبارہ ہسپتال آئی جس پر ڈاکٹروں نے اس کی سرزنش کی۔
ہسپتال انتظامیہ کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ مذکورہ خاتون ‘سوشل سٹگما’ یا سماجی بدنامی کے باعث خود کو قرنطین نہیں کر رہی اور دوسرے لوگوں میں وائرس پھیلانے کی وجہ بن رہی ہے۔
آیا کورونا وائرس واقعی سوشل سٹگما یا سماجی بدنامی کا باعث ہے؟ اس حوالے سے پشاور یونیورسٹی کے سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر ڈاکٹر ظفر خان کہتے ہیں کہ چند عوامل اور اجتماعی رویوں نے اس وائرس کو ایڈز سمیت ماضی کے کچھ امراض کی طرح نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں باعث رسوائی بنایا ہوا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ میڈیا پر کورونا مریض کو ایسا دکھایا جانا جیسے اس سے کوئی بڑی غلطی سرزد ہوئی ہو اور پھر حکومتی اہلکاروں کا اس کے گھر عجیب انداز سے آنا اور اسے ہسپتال یا قرنطینہ سنٹر منتقل کرنا، ایک بیمار کی وجہ سے تمام خاندان اور محلے والوں کو اذیت پہنچنا وغیرہ وہ عوامل ہیں جنہوں نے مقامی سطح پر اس مرض کو بدنامی کا سبب بنایا ہوا ہے۔ لیکن اس میں سب سے زیادہ جو عوامل ہیں وہ سماجی دوری اور جاں بحق افراد کے محدود جنازے ہیں۔
ڈاکٹر اعزاز کہتے ہیں کہ یہی سوشل سٹگما یا سماجی بدنامی کی سوچ بھی بہت سے لوگوں میں نفسیاتی مسائل کی وجہ بن رہی ہے۔
کرونا وباء کے دوران نفسیاتی مسائل سے بچنے کے طریقے
موجودہ صورتحال میں نفسیاتی مسائل سے کیسے بچا جائے ہر ماہر نفسیات کی اس حوالے سے اپنی رائے ہے لیکن عالمی ادارہ صحت کی جانب سے اس ضمن میں جاری کی گئی تدابیر پر تمام ڈاکٹرز متفق ہیں جو کہ ذیل میں دیئے گئے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق قابل اعتماد نیوز چینلز، جیسے مقامی اور قومی ٹی وی اور ریڈیو کی معلومات پر عمل کریں، سوشل میڈیا پر عالمی ادارہ صحت کے تازہ ترین خبروں پر نطر رکھیں۔
٭جہاں تک ممکن ہو روزمرہ کے معمولات کو جاری رکھیں، اپنے سونے کے اوقات کا بہت خیال رکھیں اور صحت بخش کھانا کھائیں۔
٭ کام کرنے کے لئے وقت اور آرام کرنے کے لئے ٹائم مختص کریں۔
٭ان چیزوں کے کئے وقت نکالیں جن سے آپ لطف اندوز ہوں۔
نیوز فیڈز کو کم سے کم کریں اور کوشش کریں آپ جتنی خبریں دیکتھے، پڑھتے یا سنتے ہیں اور اس کی وجہ سے آپ پریشان ہوتے ہیں اس سے اجتناب کریں، اگر ضرورت ہو تو دن کے مخصوص اوقات میں ایک یا دو مرتبہ تازہ ترین معلومات حاصل کریں۔
٭سماجی رابطہ ضروری ہے، اگر نقل و حرکت پر پابندی ہے تو ٹیلی فون اور آن لائن چینلز کے ذریعے اپنے قریبی لوگوں سے باقاعدہ رابطہ رکھیں۔
ہر دن اس بات سے آگاہ رہیں کہ آپ سکرین کے سامنے کتنا وقت گزارتے ہیں۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ آن اسکرین سرگرمیوں سے باقاعدہ وقفے لیتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر مثبت اور امید والی کہانیوں کو فروغ دینے کے لئے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا استمعال کریں۔
گھر میں سیکھنے کے ساتھ اپنے بچوں کی مدد کریں اور یقینی بنائیں کہ کھیل کی لئے وقت مقرر کیا گیا ہے۔
بچوں کی خوف اور افسردگی جیسے جذبات کا اظہار کرنے کے لئے مثبت طریقے تلاش کرنے میں مدد کریں۔ کبھی کبھی کسی تخلیقی سرگرمی، جیسے کھیل کھیلنا یا ڈرائنگ میں شامل ہونا، اس عمل میں آپ کی مدد کر سکتا ہے۔
تصویر بنائیں، نظم لکھیں، کچھ بنائیں ایک کیک تیار کریں اگر آپ کے پاس کوئی گانا ہے تو رقص کریں، یا اپنے باغ میں کھیلیں۔
کوشش کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کے بچے ویڈیو گیمز میں معمول سے زیادہ وقت نہ گزاریں۔
اپنے پیاروں سے باقاعدہ رابطہ رکھیں، مثال کے طور پر ٹیلی فون، ای میل، سوشل میڈیا یا ویڈیو کانفرنس کے ذریعے۔
باقاعدگی سے معمولات اور نظام الاوقات جتنا ہو سکے کھانے، نیند اور سرگرمیوں سے لطف اٹھائیں۔
روانہ آسان جسمانی ورزش سیکھیں اور کریں تاکہ آپ نقل و حرکت برقرار رکھ سکیں۔