خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

‘افغانستان میں امن قائم ہونے کے بعد بھی وہاں جانے کو تیار نہیں ہوں’

 

خالدہ نیاز

‘پاکستان میں 40 سال سے مقیم افغان مہاجرین نے اور رہن سہن کے علاوہ مقامی لوگوں کے لباس پربھی گہرے نقوش چھوڑے ہیں، اب پاکستانی خواتین شادی بیاہ اور باقی تقریبات کے موقع پر افغانی لباس کو ترجیح دیتی ہیں’

یہ خیالات سابقہ ایف آر پشاور اور موجودہ سب ڈویژن حسن سے تعلق رکھنے والی 22 سالہ شمائلہ آفریدی کے ہے۔ شمائلہ آفریدی نے بتایا کہ انہوں نے خود بھی اپنی کزن کی شادی کے لیے افغانی فراک بنائی ہے کیونکہ یہ ان کو بہت پسند ہے۔

شمائلہ آفریدی نے مزید کہا کہ افغانی بھی پختون ہیں اور وہ اپنی ثقافت سے بہت محبت کرتی ہیں اور ان کو خوشی ہے کہ اب باہر کی دنیا کے لوگ بھی افغانی فراکس کو پہنتے ہیں۔ اقراء خان کے مطابق جب بھی انکی یونیورسٹی میں کوئی پروگرام ہوتا ہے تو وہ یہی افغانی فراک پہنتی ہے جس کی باقی لڑکیاں تعریف کئے بنا رہ نہیں سکتی اور باقاعدہ اس طرح کے لباس کا مطالبہ بھی کرتی ہیں۔

پشاور یونیورسٹی میں شعبہ عمرانیات کے استاد ظفرخان کے مطابق نہ صرف خواتین افغانی ڈریسز پسند کرتی اور بنواتی ہیں بلکہ پشاور میں مرد بھی افغان شلوار قمیص پہنتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ افغانی پلاؤ، پٹی تیکی (مخصوص خوراک) افغانی قہوہ وغیرہ کا استعمال بھی زیادہ ہوگیا ہے۔

1979 میں افغانستان پرروس کے حملے کے بعد لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین نے پاکستان ہجرت کی جن میں سے زیادہ نے خیبرپختونخوا میں رہائش اختیارکی جو اب تک یہاں آباد ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے افغان مہاجرین یو این ایچ سی آر سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق پاکستان میں اس وقت تین کیٹگریز رکھنے والے افغان مہاجرین آباد ہیں۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق ایک کیٹگری رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی ہے جو پی او آر یعنی پروف آف رجسٹریشن کارڈز کے حامل ہے انکی تعداد 14 لاکھ ہے جبکہ دوسری کیٹگری میں وہ افغان مہاجرین شامل ہیں جن کو حکومت پاکستان نے 2017 میں افغان سٹیزن کارڈز دے رکھے ہیں ان کی تعداد 8 لاکھ 80 ہزار ہے اور تیسری کیٹگری ان لاکھوں افغان شہریوں کی ہے جو پاکستان میں بغیر کاغذات کے رہ رہے اور ان کے پاس کسی قسم کا کوئی کارڈ یا شناختی کارڈز نہیں ہے۔

افغانی بھی پاکستانی رنگ میں رنگ گئے ہیں

اگر ایک طرف پاکستانیوں نے افغان مہاجرین کی ثقافتی چیزوں کو اپنایا ہے تو وہیں یہاں زندگی بسرکرنے والے افغانی بھی پاکستانی رنگ میں رنگ گئے ہیں۔ اقراء خان اور انکی دوستوں کو افغانی لباس پسند ہے تو افغانستان سے تعلق رکھنے والی زینت پاکستانی لباس اور خوراک کی دلدادہ ہے۔

ننگرہار سے تعلق رکھنے والی 23 سالہ زینت کا خاندان پچھلے 40 سال سے پشاور میں آباد ہیں اور زینت کی پیدائش بھی پاکستان میں ہوئی ہے۔ زینت نے بتایا کہ ان کو پاکستانی کپڑے بہت پسند ہے اور وہ یہاں اکثر پاکستانی کپڑے ہی پہنتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں مقیم ان کے رشتہ دار بھی پاکستانی کھانے بہت شوق سے کھاتے ہیں اور جب بھی افغانستان سے انکے رشتہ دار آتے ہیں تو ان کے لیے خاص طور پرچکن بریانی بناتے ہیں کیونکہ ان کو بہت پسند ہے۔

‘ ہمارے پڑوسی سارے پاکستانی ہیں اور وہ افغانی خوراک کابلی پلاؤ اور منتو کو بہت پسند کرتے ہیں ہم جب بھی بناتے ہیں تو ان کے گھر بھیجتے ہیں، اس کے ساتھ وہ ہم سے ریسپی بھی پوچھتے ہیں اور پھر اپنے گھروں میں بناتے ہیں، پاکستانی لوگ ہماری شادی بیاہ کے تقریب میں بھی شرکت کرتے ہیں اور ہم سے افغانی لباس لانے کی بھی فرمائش کرتے ہیں پھر ہم افغانستان سے بھی ان کے لیے کپڑے وغیرہ لاتے ہیں۔ زینت نے بتایا۔

اگر ایک طرف زینت پاکستانی لباس کی شوقین ہے تو دوسری جانب پاکستانیوں پربھی افغانی ثقافت نے گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ ظفرخان نے بتایا کہ افغان مہاجرین کے یہاں آباد ہونے کے بعد مقامی لوگوں نے افغانیوں کے خوراک، لباس وغیرہ کو استعمال کرنا شروع کیا اور اب کچھ پاکستانی لوگ ان کی طرح لباس اور خوراک کا استعمال کرتے ہیں۔

ظفرخان کے مطابق افغان مہاجرین نے خیبرپختونخوا میں زبان پر بھی کافی اثرات چھوڑے ہیں کیونکہ اب کئی افغانی پشتو کے الفاظ زبان زد عام ہوچکے ہیں اور لوگ اپنی زبان میں اس کا استعمال کرتے ہیں۔ انہوں بتایا کہ جولوگ افغانیوں کے قریب رہتے ہیں ان کے کھانوں میں بھی افغانیوں کا ذائقہ نظر آتا ہے کیونکہ وہ بھی اس طرح کھانے بناتے ہیں جس طرح افغانی لوگ بناتے ہیں۔

زینت تو پاکستانی ثقافت سے متاثر ہے لیکن کچھ افغانی باشندے جو یہاں پاکستان میں پیدا ہوئے ہیں وہ افغانستان میں امن کے قیام کے بعد بھی وہاں جانا نہیں چاہتے۔

میرے والدین پاکستان میں دفن ہیں: محمد سلیم

35 سالہ محمد سلیم جو پشاور رشید گڑھی میں رہائش پذیر ہے اور شعبہ بازار میں سپیئرپارٹس کا دوکان کرتا ہے وہ بھی پاکستان چھوڑنے کو تیارنہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ انکے والدین پاکستان میں دفن ہے اور ان یہاں اپناگھرہے اور افغانستان میں امن کے بعد بھی وہ یہاں سے جانے کو تیارنہیں۔

محمد سلیم نے کہا ‘ میں یہاں دسویں تک تعلیم بھی حاصل کرچکا ہوں جسے حاصل کرنے میں مجھے کوئی دقت پیش نہیں آئی، اپنا گھر لیا ہے یہاں، کام بھی کرتا ہوں سب لوگ اعتماد کرتے ہیں، وہاں اب ہمارا کوئی نہیں ہے اس لیے میں جانا نہیں چاہتا’

انہوں نے کہا کہ اگر ان کو یہاں سے نکل جانے کو کہا گیا تو بھی یہاں سے نہیں جاسکتے بلکہ یہاں کے جو قوانین ہیں ان پردل سے عمل کریں گے لیکن واپس جانا نہیں چاہتے۔

ماہرین کے مطابق 40 سال پہلے افغانستان پر روسی افواج کے حملے کے بعد پاکستان کا رخ کرنے والے لاکھوں افغانی اپنی ثقافت، روایات، طرزِ زندگی، رہن سہن اور دیگر معاملات بھی ساتھ لائے تھے جو اب اس معاشرے کا اہم حصہ بن چکے ہیں۔

اگر ایک طرف خواتین میں افغانی فراکس کی طلب بڑھ گئی تو دوسری جانب کئی لوگوں کے لیے کمائی کا ذریعہ بھی بن گیا ہے۔ انہیں میں ایک اورنگزب بھی شامل ہے، پشاور میں افغانی ڈریسز بنانے کے ماہر اورنگزیب نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ پچھلے 20 سال سے کپڑے سی رہے ہیں تاہم چند سال سے انہوں نے افغانی لباس بنانا بھی شروع کیا ہے کیونکہ آجکل لڑکیاں اس کی بہت زیادہ ڈیمانڈ کرتی ہیں اور شادی بیاہ اور عام فنکشز میں افغانی لباس کو شوق سے پہنا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا’ پہلے افغانی فراک صرف افغانی خواتین ہی پہنا کرتی تھی لیکن اب اس لباس کو نہ صرف پورے پاکستان میں بلکہ یورپین ممالک میں بھی پسند کیا جاتا ہے اور وہاں سے بھی اس کے آرڈر ملتے ہیں، پہلے یہ لباس سادہ ہوا کرتا تھا لیکن اب اس میں نت نئے ڈیزائن بھی آگئے ہیں جس کی وجہ سے بھی اس کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے’

سب سے زیادہ افغان مہاجرین خیبرپختونخوا میں ہے

یواین ایچ سی آر ریکارڈ کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ رجسٹرڈ افغان خیبرپختونخوا میں رہائش پذیرہے جن کی تعداد 8 لاکھ 25 ہزار ہے، بلوچستان میں ان کی تعداد 3 لاکھ 25 ہزار، پنجاب میں ایک لاکھ 60 ہزار جبکہ سندھ میں صرف 65 ہزار افغان مہاجرین آباد ہے۔

ہاتھ سے بنی ہوئی چیزوں کا آن لائن بزنس کرنے والے انیس الرحمان نے ظفرخان کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ افغان مہاجرین کے یہاں رہن سہن نے یہاں کی ثقافت پر کافی اثرات چھوڑے ہیں یہاں کے لوگوں نے افغان ثقافت کی کچھ چیزوں کو اپنایا ہے اور اس کا استعمال بھی شروع کیا ہے جیسا کہ افغانی لباس، واسکٹ اور مخصوص مردانہ افغانی قمیص شلوار وغیرہ جبکہ افغان مہاجرین نے بھی پاکستان کی کچھ چیزوں کا استعمال شروع کیا ہے جن میں چارسدہ کے مشہور چپل، پکول، پاکستانی چادر اور کھدڑ کے کپڑے وغیرہ شامل ہیں۔

چارسدہ سے تعلق رکھنے والے انیس الرحمان نے بتایا کہ انہوں نے ہینڈی کرافٹ کے نام سے آن لائن بزنس شروع کیا ہے جس میں وہ افغانی ڈریسز، افغان جیولری، پاکستانی چپل، پکول، ہاتھ سے بنے ہوئے سویٹر، نوادرات اور باقی ہاتھ سے بنی چیزیں بنانے والوں کا ایک نیٹ ورک بنایا اور اب آن لائن پوری دنیا میں ان چیزوں کو متعارف کروارہے ہیں۔

یو این ایچ سی آر سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق ادارے نے افغان مہاجرین کے پاکستان میں ساڑھے چار ہزار پراجیکٹس شروع کیے ہیں جس کے تحت انکی تعلیم، صحت اور باقی ضروریات کو پورا کیا جارہا ہے لیکن اس کے ساتھ ان کا بھی پاکستانی معیشت میں کردار ہے کیونکہ افغان مہاجرین نے خود بھی پاکستان میں مختلف قسم کے کاروبار شروع کیے ہیں۔

افغان مہاجرین کے پاکستانی معیشت پراچھے اور برے اثرات

افغان مہاجرین کا پاکستانی معیشت پر کیا اچھے اور برے اثرات ہیں اس حوالے سے بات کرتے ہوئے پشاور یونیورسٹی میں شعبہ اکنامکس کے پروفیسر اور ماہرمعاشیات ڈاکٹر ذلاکت خان نے بتایا کہ افغانستان میں حالات خراب ہونے کے بعد جب افغان مہاجرین پاکستان آنا شروع ہوئے تو اس سے اس وقت پاکستانی معیشت پربہت برا اثر پڑا کیونکہ پاکستان کا معیشت پہلے ہی سے کمزور تھا اور ایسے میں اچانک لاکھوں مہاجرین کی آمد نے معاشی مسائل بڑھادیئے لیکن آہستہ آہستہ جب ان کو امداد ملنا شروع ہوئی اور انہوں نے خود بھی کاروبار کرنا شروع کیا تو پھر حالات ٹھیک ہونا شروع ہوئے۔

پاکستانی معیشت پر افغان مہاجرین کے اچھے اثرات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ذلاکت خان نے کہا کہ جب یہ لوگ یہاں آباد ہوئے تو انہوں نے پاکستانی مصنوعات کو خریدنا شروع کیا اور پاکستانی اشیاء کی فروخت میں تیزی آنے لگی’ کابل اور جلال آباد میں کئی ممالک کی دوائیاں پڑی ہوتی ہیں لیکن افغان لوگ پاکستانی دوائیوں کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ وہ اس کے عادی ہوچکے ہیں اس کے ساتھ ساتھ افغانستان میں پاکستانی آٹا، گھی اور مرغیاں وغیرہ بھی شوق سے لوگ کھاتے ہیں’

ڈاکٹرذلاکت خان نے کہا کہ افغان مہاجرین نے یہاں آباد ہوکر وہ کام بھی کرنا شروع کیے جو یہاں کے لوگ نہیں کرتے تھے جس طرح تعمیراتی کام وغیرہ جس کی بدولت وہ پاکستانی معیشت میں بھی اہم کردار ادا کررہے ہیں، اس کے علاوہ بھی بہت سارے کاروبار کررہے ہیں اب اگر یہ لوگ یہاں سے چلے جاتے ہیں تو پاکستانی اور خاص طور پرخیبرپختونخوا کی معیشت کو بڑا دھچکا لگے گا۔

برے اثرات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک طرف تو افغان مہاجرین سارے کاروباروں پرقابض ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے مقامی لوگ بے روزگار ہوگئے تو دوسری جانب افغان مہاجرین کے پاکستان میں آباد ہونے سے کلوشنکوف اور ہیروئن کلچر کو فروغ ملا ہے اور ساتھ ساتھ یہ لوگ قتل وغارت کے مختلف جرائم میں بھی ملوث ہیں۔

دوسری جانب ایس ایس پی آپریشن پشاور ظہور آفریدی کے مطابق سال 2020 کے دوران پشاور میں افغان باشندوں کے خلاف قتل، قدام قتل، چوری اور ریپ سمیت باقی جرائم کے کل 186 کیسز رجسٹرڈ ہوئے جن میں 220 افغانی ملوث تھے اور ان میں سے 212 ملزمان کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔

ایس ایس پی آپریشن سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق پشاور میں لاک ڈاون کے دوران افغانی باشندوں کے خلاف 24 کیسز رجسٹرڈ ہوئے جن میں 30 افراد ملوث تھے اور 29 کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جرائم میں افغان باشندوں کا شرح 5۔15 فیصد ہے۔

پشاور میں موجود افغان کمشنریٹ میں ڈائریکٹر سلوشن سٹریٹیجی کے حیث پرکام کرنے والے فضل ربی نے بتایا کہ بدقسمتی سے ابھی تک پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کے لیے کوئی مخصوص قانون سازی نہیں ہوئی لیکن انسانی حقوق کی بنا پران کو حقوق حاصل ہیں مثلا افغان مہاجرین پاکستان میں جہاں چاہے رہ سکتے ہیں اس کے علاوہ وہ اپنا کاروبار بھی کرسکتے ہیں اور کربھی رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں رجسٹرڈ اور غیررجسٹرڈ کل 27 لاکھ کے قریب افغان مہاجرین رہائش پذیر ہے جن میں سے 5 لاکھ کے قریب غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین ہے۔ فضل ربی نے کہا کہ پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کی پہلی مردم شماری 2005 میں ہوئی جس کو مالی امداد یو این ایچ سی آرنے فراہم کیا اور باقی سپورٹ پاکستان سینسس آرگنائزیشن نے دی۔ فضل ربی کے مطابق اس وقت پاکستان میں پی او آر کارڈ پروف آف رجسٹریشن رکھنے والوں کی تعداد 14 لاکھ 16 ہزارکے قریب ہے جن میں سے 58 فیصد خیبرپختونخوا میں آباد ہے جن کی تعداد 8 لاکھ 16 ہزار کے قریب ہے۔ ڈائریکٹر سلوشن سٹریٹیجی نے کہا کہ 2016 میں پاکستانی حکومت نے افغانیوں کی رجسٹریشن کے لیے ان کو افغان سٹیزن کارڈ جاری کئے اور وہ یہ کارڈ رکھنے والے افراد کی تعداد 8 لاکھ ہے۔

امن معاہدہ کامیاب ہونے کی صورت میں افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے کیا لائحہ عمل ہے اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ ان پرزبردستی نہیں کی جائے گی بلکہ جو رضاکارانہ طور پرخود جانا چاہے وہ جاسکتے ہیں لیکن ہم چاہتے ہیں کہ یہ واپس اپنے وطن جائے اور وہاں کی تعمیر وترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔

لیکن محمد سلیم کی طرح کئی افغان باشندے اپنے وطن واپس جانے کو تیار نہیں ہے۔ پشاور میں رہائش پذیرنازش کا کہنا ہے کہ ان کے دادا 40 سال قبل پاکستان آئے تھے اور اب ان کا زیادہ ترخاندان یہی پاکستان میں آباد ہے اور ان کا اپنا سپیئرپارٹس کا کاروبار ہے۔

28 سالہ نازش نے کہا کہ انکی شادی ایک پاکستانی مرد سے ہوئی ہے جبکہ انکے خاندان کے لڑکوں نے بھی پاکستانی لڑکیوں سے شادیاں کی ہے اور وہ سب پاکستان سے بے حد محبت کرتے ہیں اور وہ افغانستان واپس نہیں جانا چاہتے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے یہاں تعلیم حاصل کی ہے جبکہ افغانستان میں نوکری کے زیادہ ترمواقع فارسی زبان پرعبور رکھنے والوں کو ملتے ہیں اور انہوں نے اپنی تعلیم اردو زبان میں حاصل کی ہے تو ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ واپس جانا نہیں چاہتے۔

 

 

 

 

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button