خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں داخلہ بند، مقامی مریضوں کا کیا بنے گا؟

افتخار خان

حیات آباد میڈیکل کمپلیکس پشاور کی انتظامیہ نے دوسرے ہسپتالوں سے لائے جانے والے مریضوں کو داخل کرنے اور علاج معالجے کی سہولیات دینے پر پابندی عائد کردی ہے۔ ہسپتال انتظامیہ کے مطابق یہ انتہائی قدم ہسپتال میں کورونا وائرس کے زیادہ مریض آنے کی وجہ سے اٹھایا گیا ہے۔

حیات آباد میڈیکل کمپلکس کی ترجمان کا کہنا ہے کہ پچھلے چند دنوں سے صوبے کے دیگر اضلاع کے ہسپتالوں سے یہاں ریفر کئے جانے والے مریضوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے ہسپتال انتظامیہ کو خدشہ ہے کہ اس طرح مریض بڑھنے سے مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔

حیات آباد میڈیکل کمپلکس میں مجموعی طور پر 1250 بیڈز ہیں جن میں 360 کورونا مریضوں کے لئے مختص کئے گئے ہیں۔ ترجمان نے ہسپتال میں کورونا مریضوں کے لئے مختص بیڈز ختم ہونے کی تردید کی ہے اور واضح کیا ہے کہ ان 360 بیڈز میں سے اس وقت 88 پر کورونا مریض زیرعلاج ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان مریضوں میں کئی ایک وینٹی لیٹرز پر ہیں جبکہ آکسیجن کی ضرورت تقریباؑ ہر ایک کو پڑ رہی ہے۔

ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ہسپتال ترجمان توحید ذوالفقار نے کہا کہ مریضوں کی آمد میں اضافے سے ہسپتال میں آکسیجن اور وینٹی لیٹرز کی کمی آسکتی ہے جس سے موجودہ داخل مریضوں یا نئے آنے والے سیریس مریضوں کے علاج معالجے پر اثر پڑ سکتا ہے۔

ہسپتال میں وینٹی لیٹرز کی مجموعی تعداد 44 بتائی جاتی ہے جن میں 12 انتہائی نگہداشت یونٹ میں لگے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں کورونا مریضوں کی آمد میں اضافے کی ایک بڑی وجہ یہاں ان مریضوں کا پلازمہ کے ذریعے علاج شروع کروانا ہے، حیات آباد میڈیکل کمپلیکس یہ طریقہ علاج اپنانے والا صوبے کا واحد ہسپتال ہے۔

حیات آباد میڈیکل کمپلیکس سمیت پشاور کے تینوں بڑے تدریسی ہسپتالوں کو صوبے کے دیگر ضلعی اور تحصیل ہیڈکوارٹرز ہسپتالوں سے مریضوں کا ریفرل ایک عرصے سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔

صوبائی حکومت اور محکمہ صحت کے افسران نے اس سلسلے میں بارہا ہسپتالوں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ ایسے مریضوں کو پشاور منتقل کرنے سے گریز کیا جائے جن کا علاج مقامی ہسپتالوں میں ممکن ہو کیونکہ اس اقدام سے نہ صرف مریضوں کی مشکلات مزید بڑھتی ہیں بلکہ پشاور کے ہسپتالوں پر اضافی بوجھ بھی پڑ رہا ہے۔

دنیا بھر کی طرح خیبر پختونخوا میں بھی کورونا وائرس کی وباء پھیلنے کے بعد یہ مسئلہ مزید گھمبیر صورت اختیار کر چکا ہے اور ان تینوں ہسپتالوں، حیات آباد میڈیکل کمپلکس، خیبر ٹیچنگ ہسپتال اور لیڈی ریڈنگ ہسپتال، کے منتظمین کے مطابق کورونا وباء کے ساتھ دوسرے اضلاع سے لائے جانے والے مریضوں کی تعداد میں مزید اضافہ دیکھا گیا ہے۔

چند ہفتے پہلے وزیراعلیٰ کے مشیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی ضیاءاللہ بنگش نے اپنے ابائی ضلع کوہاٹ میں ڈاکٹروں کو سختی سے تاکید کی تھی کہ مریضوں کو پشاور منتقل کرنے کا سلسلہ فوراً روک دیا جائے۔ انہوں نے واضح کیا تھا کہ جس ڈاکٹر نے بلاضرورت کسی مریض کو پشاور ریفر کیا تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

صوبائی مشیر کے اس بیان پر ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن نے سخت ردعمل ظاہر کیا تھا اور کہا تھا کہ اگر پاکستان تحریک انصاف گزشتہ سات سالوں میں اضلاع میں ہسپتالوں کو بنیادی ضروری سامان اور سہولیات فراہم کرتی تو مریضوں کو پشاور یا اسلام آباد ریفر کرنے کی نوبت نہ آتی۔

ایسو سی ایشن کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ اضلاع اور تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتالوں میں ایک طرف ڈاکٹرز اور دیگر سٹاف کی کمی بدستور موجود ہے تو دوسری طرف ان ہسپتالوں کو کسی قسم کی سہولیات نہیں دی جا رہیں۔ انہوں نے واضح کیا تھا کہ ڈاکٹرز بلا ضرورت کسی مریض کو دوسرے ہسپتال ریفر نہیں کرتے بلکہ یہ اقدام اسی صورت میں اٹھایا جاتا ہے جب موجودہ ہسپتال میں مطلوبہ سہولیات یا سپیشلسٹ ڈاکٹرز نہ ہوں۔

حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں داخلہ بند، مقامی مریضوں کا کیا بنے گا؟

دوسری جانب صوبے کے سب سے بڑے ہسپتال کے ایک ڈاکٹر نے ٹی این این سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صرف چھوٹے ہسپتالوں سے نہیں بلکہ مردان میڈیکل کمپلکس جیسے بڑے تدریسی ہسپتالوں سے بھی مریضوں کو پشاور ریفر کیا جاتا ہے جو کہ سمجھ سے بالاتر ہے۔

انہوں نے کہا کہ مردان میڈیکل کمپلیکس میں سہولیات کسی طور پر لیڈی ریڈنگ یا حیات آباد میڈیکل کمپلکس سے کم نہیں ہیں لیکن پھر بھی ڈاکٹرز نجانے کیوں مریضوں سے جان چھڑانے کے لئے انہیں پشاور منتقل کرتے ہیں جو کہ نہ صرف مریضوں کے ساتھ زیادتی ہے بلکہ وہاں کے ہسپتالوں پر رش بھی بے جا طور پر بڑھ جاتا ہے۔

حیات آباد میڈیکل کمپلکس کی ترجمان توحید ذوالفقار کے مطابق ریفرل مریضوں کو نہ لینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہسپتال فی الوقت مزید مریضوں کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتا کیونکہ آج کل کورونا وائرس کی علامات والے مریض زیادہ آ رہے ہیں جن کو ٹسٹ، کھانا پینا اور علاج کی سہولیات ہسپتال انتظامیہ مفت فراہم کر رہی ہے۔

کورونا مریضوں کے پلازما طریقہ علاج کے حوالے سے ہسپتال ترجمان کا کہنا تھا کہ اب تک 4 افراد اس طریقہ علاج سے صحتیاب ہو چکے ہیں جبکہ مزید کئی ایک کا علاج جاری ہے۔

حیات اباد میڈیکل کمپلیکس کو ابھی تک چار افراد نے اپنے خون کا پلازما عطیہ کیا ہوا ہے جن میں تین ہسپتال کے اپنے ملازمین ہیں جبکہ ہسپتال انتظامیہ نے اس سلسلے میں کورونا سے صحتیاب ہونے والے دیگر افراد سے بھی درخواست کی ہے کہ خون کے پلازما عطیہ کریں کیونکہ ایک شخص کے پلازما سے دو افراد کی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔

توحید نے واضح کیا پلازما کی یہ منتقلی صرف انتہائی نازک مریضوں کو کی جاتی ہے جبکہ بعض اوقات ایسے مریض بھی اس طریقہ علاج کا مطالبہ کرتے ہیں جن میں علامات سنجیدہ نوعیت کی نہیں ہوتیں اور وہ عام دوائیاں استعمال کر کے بھی صحت یاب ہو سکتے ہیں۔

حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کی ترجمان نے کہا کہ فی الوقت ان کے پاس پلازما اتنی مقدار میں نہیں کہ دوسرے ہسپتال سے مریض اس کے لئے آئیں جبکہ تمام ہسپتالوں کو چاہئے کہ اس ایمرجنسی صورتحال میں اپنی استعداد کے مطابق علاج کی سہولیات فراہم کریں اور اپنے آرام کی خاطر مریضوں کو دوسرے ہسپتالوں کو ریفر کرنے سے گریز کریں۔

خیال رہے کہ آج بروز جمعرات، مورخہ 20 مئی تک صوبہ بھر میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 8483 تک پہنچ گئی ہے جبکہ 425 افراد اس وائرس سے جاں بحق ہوئے ہیں۔

صوبے بھر کے کورونا مریضوں میں سے 40 فیصد کا تعلق صرف پشاور سے ہے جس کے بارے میں حیات میڈیکل کمپلیکس کی ترجمان کا کہنا ہے کہ اگر تمام اضلاع سے مریض پشاور لائے جانے لگے تو چند ہی دنوں میں تمام مختص بیڈز سمیت ساری سہولیات ختم ہو جائیں گی جس کے بعد پشاور سے آنے والے مقامی مریضوں کا کیا بنے گا؟

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button