پاک بھارت کشیدگی سے بہائی کمیونٹی کی عبادات بھی متاثر
ناہید جہانگیر
‘پاکستان نے جب کرتارپور بارڈر پر واقع دربار صاحب گوردوارہ سکھ یاتریوں کے لئے کھولا تو تھوڑی امید بندھ گئی کہ شاید بھارت بھی پاکستان میں بہائی برادری کو دہلی میں واقع ان کے مقدس مقام مشرق الاذکار جانے کی اجازت دے لیکن یہ خواہش بس خواہش ہی رہ گئی۔’
نہ صرف خیبرپختونخوا بلکہ ملک بھر میں لوگ اس اقلیت سے ناواقف نظر آتے ہیں ، پشاور کی رہائشی شمیم جو کہ پاکستان کی اقلیتی مذہب، بہائی کمیونٹی، سے تعلق رکھتی ہے۔ نے کہاکہ ان کے مسائل کے حل کے لئے الگ انتظامیہ موجود ہیں۔ انکے عقیدے کے مطابق بڑی عبادت گاہ میں جانا لازمی نہیں ہے۔ وہ اپنی عبادت کہی بھی کرسکتے ہیں۔
2012 میں غیر حتمی مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق پاکستان بھر میں بہائی کمیونٹی کے صرف 33 ہزار پیروکار ہیں، پوری دنیا میں 7 ملین جبکہ خیبر پختونخوا میں ہر بڑے شہر میں بہائی برادری رہتی ہیں جبکہ پشاور میں صرف 7 سے 10 خاندان ہی آباد ہیں جن کی تعداد چند درجن ہی ہے۔ (2017 کی مکمل رپورٹ میں اسکا کوئی ذکر نہیں ہے)
شمیم کا کہنا ہے کہ دنیا کے ہر براعظم میں ان کی کمیونٹی کا ایک ایک مقدس مقام موجود ہے جن میں جنوبی ایشیاء والی عبادت گاہ بھارت کے شہر دہلی میں ہے۔
‘ہم اپنی عبادات اور مشرق الاذکار کی زیارت کے لئے باقاعدہ دہلی جاتے ہیں لیکن جب بھی دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھ جاتی ہے تو بہائی کمیونٹی کے لئے بھی وہاں جانا مشکل ہوجاتا ہے۔لیکن بہائی کمیونٹی میں عبادت گاہ جانا ضروری نہیں ہے وہ ہر جگہ اپنی عبادت کرسکتے ہیں ‘ شمیم نے بتایا۔
بہائی عقیدے کا آغآز 1844 میں ایران سے ہوا تھا اور شمیم کے مطابق اس عقیدے کے لوگ پاکستان بننے سے پہلے سے یہاں آباد ہیں۔
خیبر پختونخوا میں بہائی عقیدے کے لوگ نہ صرف پشاور میں بلکہ خیبر پختونخوا کے سب بڑے شہروں میں آباد ہیں ۔
جے ڈی ایچ آر خیبر پختونخوا کے کوآرڈینیٹر محبوب جبران کا کہنا ہے کہ بعض لوگ بہائی عقیدے کو اسلام سے منسوب کرتے ہیں لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے، یہ ایک الگ عقیدہ ہے، ان کا الگ عبادت خانہ ہوتا ہے جہاں اس برادری کے لوگ دنیا سے الگ تھلگ ہوکر ایک معاملہ پرسوچ و فکر کرکے اپنی عبادت کرتے ہیں۔
پاکستان میں اور خاص طور پر خیبر پختونخوا میں بہائی برادری کی تعداد بہت ہی کم ہے۔ اسی طرح تعداد کی مناسبت سے ان کی عبادت گاہیں بھی بہت کم ہیں، ان کی عبادت کا طریقہ کار بھی بہت الگ سا ہے، انہوں نے اپنے لئے پشاور میں ایک چھوٹا سا کمیونٹی ہاؤس منتخب کیا ہے جہاں یہ لوگ سوشل گیدرنگ کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں اور یہ اپنے عقیدے کا پرچار بھی بہت ہی کم کرتے ہیں۔ محبوب جبران بونیری نے کہا۔
اسی طرح پشاور میں اقلیتوں پر رپورٹنگ کرنے والے صحافی محمد فہیم کا کہنا ہے کہ بہائی برادری اپنے عقیدے سے کام رکھتے ہیں اور خود کو سیاست سے دور رکھتے ہیں، کیونکہ ان کا مذہب بھی ان کو سیاست سے دور رہنے کی تاکید کرتا ہے جس کی وجہ سے بہائی برادری کو دوسرے لوگوں کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔
محمد فہیم نے کہا کہ یہ برادری امن پر بہت کام کرتی ہے، مذہبی ہم آہنگی پر لوگ آج بات کرتے ہیں جبکہ بہائی برادری نے پشارو میں نوے کی دہائی میں مذہبی آہنگی پر کام کیا اور اس سلسلے میں کئی کانفرنسیں منعقد کیں۔
بہائی عقیدے کے ماننے والے دیگر مذاہب سے خود کو دور نہیں رکھتے اور ان کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کی ہر ممکن مدد کریں۔
میڈیا میں کوریج کے حوالے سے محمد فہیم نے کہا کہ ایک تو بہائی کمیونٹی تعداد میں بہت کم ہے دوسری اہم بات یہ لوگ خود بھی میڈیا سے دور رہے ہیں تو میڈیا بھی اسی حساب سے بہت کم کوریج دیتا ہے۔
فہیم کے مطابق اس عقیدے کے لوگ کافی تعلیم یافتہ اور اچھے عہدوں پر فائز ہیں جس کی وجہ سے دیگر اقلیتوں کے مقابلے میں پاکستان میں بہائی برادری کے سماجی مسائل نہ ہونے کے برابر ہیں۔
شمیم خود بھی پیشے کے لحاظ سے ایک لینگویسٹ ہیں اور مختلفوں مذاہب پر کام کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بالخصوص خیبر پختونخوا میں ان کی کمیونٹی کو زیادہ مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا، چونکہ عقیدے کے زیادہ تر پیروکار صاحب ثروت ہیں تو وہ لوگ مقامی طور پر خود ہی اپنے لئے چھوٹی چھوٹی عبادت گاہیں تعمیر کرتے ہیں اور ان کی دیکھ بھال کے لئے بھی برادری کے اندر ہی عطیات جمع کیے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دہلی کے مشرق الاذکار کے دروازے بند ہونے ہونے کے بعد بہائی کمیونٹی نے ایشیاء میں دوسرا مشرق الاذکار پاکستان میں تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لئے زمین بھی خریدی جا چکی ہے۔
یہ مشرق الاذکاراسلام آباد میں بنے گا شروع میں فنڈ کی کمی تھی جس کو بعد میں خود بہائی کمیونٹی نے حل کیا۔ اس کے علاوہ کوئی مسئلہ نہیں تھا اور نہ ہی حکومت سے کسی تعاون کا طلبگار ہوئے۔ شاید جب اس کا کام شروع ہو تو کچھ مدد کی ضرورت پڑے۔ جس میں ایک اہم چیز نقشے کو پاس کرانا ہے۔
کیونکہ اگر بھارت اور پاکستان میں کسی سیاسی مسئلے کی وجہ سے بہائی وہاں نہیں جا سکتے تو بہائی اپنے ملک کے آئین اور قوانین کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں اور وہاں اپنی عبادت گاہ کی زیارت کے لئے نہیں جاتے، اب جب اپنے ملک میں بنے گا تو وہ آسانی سے اپنے ملک میں عبادت گاہ کی زیارت آسانی سے کرسکیں گے۔’ شمیم نے کہا۔
شمیم کے مطابق مشرق الاذکار صرف ایک عبادت گاہ نہیں ہوتا بلکہ اس میں لائبریری، یتیم خانہ، بیواؤں کے لئے الگ جگہ، ہسپتال اور سرائے بھی اس کے اہم لوازمات ہیں جن کے بغیر کوئی عبادت خانہ مکمل نہیں ہوتا، ملالی اختری نے بتایا۔
مشرق الاذکار کی تعمیر ایک مخصوص طرز کی ہوتی ہے جس کے 9 دروازے ہوتے ہیں اور ساتھ میں ارد گرد 9 حوض ہوتے ہیں۔
پاکستان کا آئین بھی تمام مذاہب کو مکمل مذہبی آزادی کا حق دیتا ہے، اسی حوالے سے پشاور ہائی کورٹ کے وکیل عامر جہانگیر نے کہا کہ پاکستان کا قانون ہر مذہب کو مذہبی آزادی کے ساتھ ان کی عبادت گاہوں کو بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔
آرٹیکل 20 کے مطابق تمام مذاہب کے ماننے والوں اور تمام مذہبی اداروں کو مکمل آزادی حاصل ہے۔
آئین کے آرٹیکل 20 (الف) کے مطابق ہر شہری کو اپنے مذہب کا دعوی کرنے ، اس پر عمل کرنے اور اس کا پرچار کرنے کا حق حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 20 (ب) میں ہر مذہبی فرقہ اور ہر فرقے کو اپنے مذہبی اداروں اور عبادت گاہوں کے قیام، انہیں برقرار رکھنے اور ان کا انتظام کرنے کا حق حاصل ہے۔
عامر جہانگیر نے کہا کہ آئین کی رو سے مملکت پاکستان اقلیتوں کے تمام جائز حقوق و مفادات کا تحفظ کرے گی اور تمام اکژیت اور اقلیتوں کو یکساں حقوق فراہم کرتی ہے تو چاہے جس مذہب کے بھی پیروکار یا ماننے والے ہوں وہ پاکستان کے کسی بھی صوبے یا شہر میں عبادت گاہ قائم کرسکتے ہیں اور وہاں قانون کی رو سے مکمل آزادی کے ساتھ عبادت کر سکتے ہیں۔
پشاور میں تعداد کم ہونے کے باوجود محکمہ اوقاف کے ساتھ بہائی کمیونٹی کا الگ قبرستان بھی رجسٹرڈ ہے۔
خیبر پختونخوا کے محکمہ اوقاف کے ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر ارشد کمال کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ بہائی عقیدے کا پشاور صدر کے سنہری روڈ پر ایک قبرستان ہے جو تقریباً 8 یا 10 کنال پر مشتمل ہے۔ بہائی برادری کی تعداد بہت ہی کم ہے لیکن معاشی طور پر خوشحال ہیں تو ابھی تک آفیشل طور پر ان کی جانب سے کوئی درخواست یا کمپلینٹ نہیں آئی کہ ان کی کے لئے کوئی اور قبرستان بنایا جائے یا موجودہ قبرستان کی مرمت کی جائے۔
بہائی کمیونٹی یا کسی دوسرے اقلیتی مذہب کی عبادت گاہوں، کمیونٹی سنٹرز یا قبرستانوں کے لئے پالیسی کے حوالے سے محکمہ اوقات کے افسر نے کہا کہ اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی بحالی، مرمت یا تعمیر کے لئے صوبائی حکومت کی جانب سے سالانہ ترقیاتی پلان سکیم ہوتا ہے۔
اوقاف محکمے، لوکل ایم پی اے، ایم این اے یا سی ایم ڈی کی سفارش پر اگر وزیر اعلی کسی بھی اقلیتی مسئلے پر خود دلچسپی لیں اور یہ ایشو کریں کہ فلاں کام فلاں فلاں ایریا کی اقلیتی برادری کے لے کیا جائے، اور اس پر اتنی رقم خرچ کی جائے تو اس کے لئے معتلقہ ڈیپارٹمنٹ اوقاف ہے، تو پھر سیکرٹریٹ لیول پر اس کو اے ڈی پیز سکیم میں ڈال دیا جاتا ہے، اس طرح چھوٹی چھوٹی سکیمیں ملا کر یہ دیکھا جاتا ہے کہ اگراس پر خرچہ 60 ملین سے کم ہے تو سیکرٹری محکمہ اوقاف کو اختیار ہے کہ اس کو منظور کریں، اگر 60 میلین سے زیادہ لاگت والی کوئی سکیم ہے تو پھر صوبائی حکومت کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری منظوری دے سکتے ہیں اور منظوری کے بعد ان سکیموں پر خرچ کرنے کے لئے رقم دی جاتی ہے۔
ان کے مطابق دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی جانب سے ترقیاتی کاموں کے لئے درخواستیں موصول ہوتی رہتی ہیں لیکن بہائی کمیونٹی کی جانب سے ابھی تک ایسی کوئی درخواست نہیں آئی۔
بہائی عقیدہ ایک ایسا عقیدہ ہے جس کی عبادات اور مذہبی رسومات اور مذاہب سے بالکل مختلف ہے، ان کے مطابق تمام عبادات فرض ہیں، مثلاً نماز، روزہ اور آیات الہی وغیرہ، نماز 3 قسم کی ہوتی ہے، بڑی، درمیانی اور چھوٹی نماز، ہر بہائی عقیدے کا ماننے والا کوئی ایک قسم کا انتخاب کر کے نماز ادا کرتا ہے۔
بہائی کمیونٹی کے کلینڈر کے مطابق ایک سال میں 19 مہینے ہوتے ہیں اور ہر مہینے میں 19 دن ہوتے ہیں، یہ 361 دن بنتے ہیں باقی کے 4 یا لیپ سال ہو تو 5 دن کو بہائی آیام ھا یا آیام عطا کے نام سے منایا جاتا ہے۔ یہ 26 فروری سے یکم مارچ تک ہوتا ہے جس میں کمیونٹی خیرات اور زکواۃ دیتی ہے، اس دن غریب لوگوں کی خبر لی جاتی ہے اور جتنے بھی دوست یا رشتہ دار ہوتے ہیں ان کے لئے انہی دنوں دسترخوان بچھایا جاتا ہے، اور یہ تقریباً 19 ویں کے مہینے سے پہلے ہوتا ہے۔ اس کو منانے کے بعد خود کو روزے کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔
روزے کے حوالے بات کرتے ہوئے شمیم نے بتایا کہ بہائی عقیدے میں روزہ مارچ کے مہینے میں ہوتا ہے، 2 مارچ سے 20 مارچ تک روزے رکھے جاتے ہیں ( اوقات صبح سورج نکلنے سے لے کر غروب آفتاب تک بغیر کھائے پئے) روزوں کے اختتام پر عید نو روز منائی جاتی ہے۔
بہائی کمیونٹی کی سب سے بڑی عید، عید رضوان ہوتی ہے جو 20 اپریل سے لے کر یکم مئ تک 12 دنوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ حضرت بہاواللہ کے میلاد کی عیدیں ہوتی ہیں اور ان کی پیدائش کے دن کو بھی بہائی عید کے طور پر مناتے ہیں۔ اسی طرح اس عقیدے کے لوگ کل 7 عیدیں مناتے ہیں۔