خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

بعض لوگ یا مریض کورونا بیماری چھپاتے کیوں ہیں؟

افتخار خان

دنیا بھر میں کورونا وائرس کے متاثرین جہاں اس وائرس کو روکنے کے لئے خود کو یا تو گھروں میں الگ تھلگ کر لیتے ہیں یا قرنطینہ مراکز منتقل ہو جاتے ہیں وہاں خیبر پختونخوا میں چند ایک ایسے کیسز بھی سامنے آتے ہیں کہ کورونا مریض اس وائرس کو بدنامی سمجھ کر چھپانے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر اس حوالے سے غیرذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

ایسا پہلا کیس چند دن پہلے سوات میں سامنے آیا تھا جہاں پر معروف پشتو گلوکارہ نیلو کا کورونا ٹسٹ مثبت آنے کے بعد انہوں نے سوشل میڈیا پر ویڈیو اپ لوڈ کی کہ اس وائرس سے وہ قطعاً متاثر نہیں اور ان کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ بعد میں دوسری ویڈیو میں انہوں نے ضلعی انتظامیہ پر بھی الزامات لگائے کہ انہیں صرف ٹسٹ مثبت آنے کی اطلاع دی گئی ہے جبکہ ٹسٹ نتائج انہیں نہیں دکھائے گئے۔

اسی طرح 28 اپریل کو پشاور کی ثمینہ نامی ایک خاتون صحافی نے بھی پولیس سروسز ہسپتال میں ایک ویڈیو بنائی اور پسپتال انتظامیہ پر بدتمیزی کے الزامات لگائے۔

بعد میں ہسپتال نے وضاحت جاری کر دی کہ مذکورہ خاتون کا اپنا کورونا ٹسٹ مثبت آچکا ہے لیکن ڈاکٹر کے مشورے اور ایس او پیز کے مطابق گھر پر الگ تھلگ ہونے کی بجائے اپنے خاندان کے دیگر لوگوں کے ساتھ بغیر کسی احتیاطی تدابیر کے وہ دوبارہ ہسپتال آئی جس پر ڈاکٹروں نے اس کی سرزنش کی۔

ہسپتال انتظامیہ کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ مذکورہ خاتون ‘سوشل سٹگما’ یا بدنامی کے باعث خود کو قرنطین نہیں کر رہی اور دوسرے لوگوں میں وائرس پھیلانے کی وجہ بن رہی ہے۔

کیا کورونا وائرس سے متاثر ہونا واقعی سماجی طور پر بدنامی کا باعث بن رہا ہے؟

اس حوالے سے پشاور یونیورسٹی کے سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے لیکچرار ڈاکٹر ظفر خان کہتے ہیں کہ دنیا میں روابط زیادہ ہونے سے ویسے تو یہ وائرس کسی بھی انسان کو لگ سکتا ہے جس کا مطلب ہے کہ اس میں بدنامی کی کوئی بات نہیں لیکن چند عوامل اور اجتماعی رویوں نے اس وائرس کو ایڈز سمیت ماضی کے کچھ امراض کی طرح نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں باعث رسوائی بنایا ہوا ہے۔

‘اگر آپ کورونا وائرس سے متاثر ہیں تو یہ کوئی غیراخلاقی بات نہیں ہے اس لئے آپ کو شرم محسوس کرنے کی ضرورت نہیں۔ اور اگر متاثر نہیں ہیں تو ایسے رویے سے گریز کریں جس سے متاثرین شرمندگی محسوس کریں’ سوشیالوجسٹ نے تاکید کی۔

انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے کورونا وائرس کو چائنیز وائرس کہنے سے عالمی سطح پر یہ تاثر پھیلانے کی کوشش کی گئی کہ چائنہ کی غلطی سے یہ وائرس تمام دنیا میں پھیل چکا ہے جس کی وجہ سے ساری دنیا میں ایشین اور بالخصوص چائنیز لوگوں سے نفرت کی جانے لگی۔

ڈاکٹر ظفر خان نے کہا کہ یہ تاثر اب نچلی سطح پر بھی پھیل گیا ہے اور کورونا وائرس سے متاثرہ شخص کو بہت زیادہ ہدف کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پہلے تو میڈیا پر اس کو ایسے دکھایا جاتا ہے جیسے اس سے کوئی بڑی غلطی سرزد ہوئی ہو اور پھر حکومتی اہلکاروں کا اس کے گھر عجیب انداز سے آنا اور اسے ہسپتال یا قرنطینہ سنٹر منتقل کرنا، ایک بیمار کی وجہ سے تمام خاندان اور محلے والوں کو اذیت پہنچنا وغیرہ وہ عوامل ہیں جنہوں نے مقامی سطح پر اس مرض کو بدنامی کا سبب بنایا ہوا ہے۔

سماجی امور کے ماہر کا کہنا تھا ‘چونکہ ہمارے معاشرے کا سماجی بندھن بہت مضبوط ہے اس لئے اس مرض کے ایس او پیز کے مطابق لوگوں کو ایک دوسرے سے الگ تھلگ کرنا بہت مشکل کام ثابت ہو رہا ہے اور اس سلسلے میں علیٰحدہ کئے جانے والے شخص کو محسوس ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ ان سے کراہت محسوس کرتے ہیں۔ ‘عام طور پر بیمار انسان کو زیادہ میل جول اور محبت کی ضرورت ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے اس بیماری میں ایسا کرنا ممکن نہیں۔’ انہوں نے کہا۔

مذکورہ بالا خواتین کے معاملے کے حوالے سے ڈاکٹر ظفر نے بتایا کہ ایسا ثابت تو نہیں کہ مردوں کی نسبت خواتین ایسی صورتحال میں زیادہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوتی ہیں لیکن چند عوامل کی وجہ سے ایسا ممکن ہے۔  ہمارے ہاں مردوں کے مقابلے میں ہماری خواتین کا خاندان کے بچوں اور دوسرے لوگوں کے ساتھ وابستگی اور جذباتی لگاؤ زیادہ ہوتا ہے تو اس لئے ان کو الگ تھلگ رہنے پر مجبور کرنا مشکل ثابت ہوتا ہے اور یہی سب سے بڑا خوف اور وجہ ہے، بعض خواتین سرے سے اس بیماری کو ماننے سے ہی انکاری ہوتی ہیں حالانکہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ زیادہ مضبوط  قوت مدافعت کی وجہ سے مردوں کے مقابلے میں خواتین اس وائرس سے کم متاثر ہوتی ہیں۔

لوگوں میں اس مرض کے حوالے سے یہ خوف بھی سرایت کرچکا ہے کہ خدا نخواستہ اس سے موت واقع ہو جائے تو جنازہ میں لوگ بھی شرکت نہیں کر سکتے اور نہ ہی ان کی دعائیہ رسومات ہوتی ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے گائیڈ لائنز

ماضی میں اس طرح کی وباء کو مخصوص علاقے یا لوگوں کے ساتھ جوڑا جاتا تھا جیسا کے سپینش یا ہسپانوی انفلوئنزا، زیکا وائرس وغیرہ (زیکا یوگنڈا میں ایک جنگل کا نام ہے) جس سے نہ صرف دیگر دنیا اس مخصوص طبقے کو اس کا ذمہ دار سمجھتی اور گردانتی بلکہ وہ لوگ خود بھی دوسرے طبقات میں خود کو سماجی طور پر غیر محفوظ سمجھتے۔

اسی لئے عالمی ادارہ صحت نے 2015 میں عالمی وباؤں کے لئے چند گائیڈ لائنز متعارف کرائیں تاکہ کسی بیماری کو مخصوص علاقے یا طبقے کے ساتھ نہ جوڑا جا سکے۔

عالمی ادارہ صحت نے انہی گائیڈ لائنز کے تحت فروری 2020 میں کورونا وائرس کو عالمی وباء ڈیکلیئر کرنے کے ساتھ اس سے لگنے والی بیماری کو کوویڈ 19 کا آفیشل نام بھی دے دیا۔

ماضی کی وباؤں کے برعکس COVID-19  نام کسی مخصوص علاقے یا طبقے کی جانب اشارہ نہیں کرتا بلکہ یہ چند دیگر ناموں کے حصوں کو جوڑ کر رکھا گیا ہے، اس نام کے لئے کورونا سے  CO  لیا گیا ہے، وائرس سے VI اور بیماری یعنی ڈزیز سے D لیا گیا ہے جبکہ 19 سال کو ظاہر کرتا ہے جس میں یہ بیماری منظرعام پر آئی تھی۔

کوویڈ19 کو سماجی بدنامی کا سبب بننے سے روکنے کے لئے جہاں ڈبلیو ایچ او نے اس کے لئے الگ نام منتخب کیا وہاں اس سلسلے میں چند دیگر گائیڈ لائنز بھی متعارف کرا دی ہیں جن میں اس وائرس کو چائنیز یا ووہان وائرس کہنے سے اجتناب کا کہا گیا ہے کیونکہ اس سے ذہن ایک خاص علاقے یا نسل کی طرف جاتا ہے، کورونا وائرس سے متاثرہ شخص کو کورونا کیس یا مشکوک کیس نہ کہا جائے بلکہ انہیں کورونا سے متاثرہ یا علامات رکھنے والا کہا جائے۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق جب کوئی بیماری سماجی بدنامی کا سبب بنتی ہے تو یہ صورتحال مزید گھمبیر بنانے کی وجہ بنتی ہے کیونکہ

امتیازی سلوک متاثرہ شخص کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنی بیماری کو چھپائے

متاثرین فوری طبعی امداد لینے سے گریز کرتے ہیں

امتیازی سلوک متاثرہ فرد کو صحت مندانہ رویہ اپنانے سے روکتا ہے۔

ڈاکٹر ظفر کا کہنا ہے کہ لوگوں کے ذہنوں میں سے یہ تمام خوف دور کرنا اور اس مرض کے ساتھ جڑی بدنامی ختم کرنے میں میڈیا، حکومت، ڈاکٹران و دیگر میڈیکل سٹاف اور خود سماج کو کردار ادا کرنا ہوگا۔

میڈیا کو بجائے اس مرض کو ایک بلا کے طور پر پیش کرنے کے زیادہ توجہ اس بات پر دی جانی چاہئے کہ کیسے اس سے بچا جا سکتا ہے اور اس کے علاج کے سلسلے میں کیا پیش رفت ہو چکی ہے۔ عام لوگوں کو بھی دن رات کورونا سے متعلق خبریں پڑھنے، دیکھنے اور سننے سے گریز کرنا چاہئے تاکہ ذہن پر کم سے کم اثرات ہوں۔

ڈاکٹران و دیگر میڈیکل ٹیموں کو کورونا مریضوں کے علاج کے ساتھ ساتھ ان کو نفسیاتی طور پر بھی مضبوط رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ ذہنی دباؤ انسان کی قوت مدافعت پر اثر انداز ہوتا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button