خیبر پختونخوا

شانگلہ کے ڈاکٹرز نے کام بند کرنے کی بجائے اپنے لیے خود حفاظتی سامان کا بندوبست کیسے کیا؟

سی جے طارق عزیز

ضلع شانگلہ میں ڈاکٹروں کیلئے حفاظتی سامان کی کمی کے باعث ڈاکٹروں نے نجی دواساز کمپنیوں سے مدد مانگ لی۔ کورونا کے خلاف فرنٹ لائن کا کردار ادا کرنے والے ڈاکٹر اور دیگر طبی عملے کیلئے حفاظتی سامان کی غیر موجودگی میں کورونا کے خلاف لڑنا بہت مشکل تھا جسے حل کرنے کےلئے بشام ہسپتال کےعملے نے کام بند کرنے کی بجائے اپنے لئے پی پی ایز کا بندوبست کرنے کا فیصلہ کیا اور یوں اس کام کےلئے نجی دواساز کمپنیوں سے درخواست کی گئی۔
کورونا وباء کی وجہ سے پوری دنیا میں جہاں ہلاکتیں ہوئی وہاں مختلف ممالک کو صحت جیسی بنیادی نظام میں کوتاہیوں کا احساس بھی ہوا۔ دنیا کا سپرپاور امریکہ جو اس وقت سب سے ذیادہ متاثر ہے اور ہلاکتوں کی تعداد بھی بہت ذیادہ ہے-
امریکی نظام صحت کی ناکامی کے بعد پاکستان میں امریکی طرز کے اصلاحات جس کےلئے عمران خان نے اپنے کزن نوشیروان برکی کو خاص طور بلا کر خیبر پختونخواہ سے اصلاحات کا آغاز کیا اس پر بھی سوالات اٹھنے لگے اور جن لوگوں کو ان اصلاحات پر اعتراض تھا ان کے موقف کی تائید ہونے لگی۔
لیکن اس کے باوجود چھوٹے ہسپتالوں میں بھی(جو فی الحال ان اصلاحات سے مستفید نہیں) حکومت کی جانب سے کسی قسم کی دوائیاں اور بنیادی ضروریات کی فراہمی میں کوئی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔
کورونا کے علاج کیلئے بنیادی حفاظتی سامان کی عدم موجودگی اور کئ ہیلتھ سٹاف میں کورونا کی تشخیص کے بعد ڈاکٹروں نے بعض جگہوں جیسے کوئٹہ میں احتجاج بھی کیا اور بعض جگہوں پر کام چھوڑنے کی دھمکی بھی دی لیکن اس کے باوجود ان کے شکایات کا ازالہ نہیں کیا جاسکا۔
صوابی کے ایک ڈاکٹر کا دوران ڈیوٹی پلاسٹک شاپر کا بطور حفاظتی کٹ استعمال کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو انہں نوٹس جاری کردیا گیا اور قانونی کاروائی کی دھمکی دی گئی۔ اسی طرح شانگلہ کے تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال بشام میں حکومت کی جانب سے فراہم کردہ پی پی ایز بہت کم تھی، بشام ہسپتال کے ڈاکٹروں نے اس کا حل یوں نکالا کہ فارماسیوٹیکل کمپنیوں کو حفاظتی سامان فراہم کرنے کی اپیل کی۔
اور یوں سب سے پہلے ایک پرائیویٹ کمپنی کانٹینینٹل فارما نے کچھ سامان فراہم کیا جس کے بعد دیگر کپمنیوں نے بھی حفاظتی سامان جیسے کٹ،دستانے اور ماسک بشام ہسپتال کو تحفہ کئے۔
اس حوالے سے جب ہم نے ڈی ایم ایس ٹی ایچ کیو بشام ڈاکٹر ثناءاللہ سے رابطہ کیا تو ان کاکہنا تھاکہ ہمارے ہاں کویڈ19 سے متعلقہ ڈیوٹی پہ بیک وقت 6 لوگ ڈیوٹی دیتے ہیں اور یہ ڈیوٹی تین شفٹوں میں جاری رہتی ہیں، یوں مجموعی طور پر ہمیں 24 گھنٹوں کیلئے 18سے 20 کٹ لازم ہوتے ہیں، حکومت کی جانب سے فراہم کردہ سامان بہت کم تھا،
اس کے بعد شانگلہ سے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عباد نے اپنی پارٹی کی طرف سے کچھ سامان دیا جس نے کچھ عرصے تک ہماری ضرورت پوری کی۔
ڈاکٹر ثناءاللہ کا کہنا تھا کہ ہسپتال عملے کیلئے بنیادی حفاظتی سامان نہایت ضروری ہے اور اسی مسئلے کو حل کرنے کیلئے ہم نے پرائیوٹ دواساز کمپنیوں کو درخواست کی کہ اپ ڈاکٹروں کو مختلف تحائف دیتے رہتے ہیں، اس وقت ڈاکٹروں کےلئے پی پی ایز سے بڑھ کر کوئی تحفہ نہیں، اگر اپ ہماری مدد کرنا چاہتے ہیں تو شانگلہ کے ہسپتالوں میں کام کرنے والے عملے کیلئے حفاظتی سامان فراہم کیا جائے جس پر انہوں نے مثبت جواب دیا اور ہمیں کٹ اور دیگر سامان فراہم کیا گیا، سب سے پہلے ایشین کانٹی نینٹل فارماسیوٹیکل، اور بوش کمپنی کے گلیکسی گروپ نے بھی دستانے اور ماسک فراہم کئے جب کہ اس کے بعد شانگلہ سے مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عباداللہ کی جانب سے بھی کچھ سامان فراہم کیا گیا ہے۔
ہسپتال انتظامیہ کے مطابق فی الحال ان کے ساتھ کوئی مریض موجود نہیں جس کی وجہ سے سامان کی ضرورت نہیں پڑ رہی، اگر خدانخواستہ ضرورت پڑی تو ہم دوبارہ ان کمپنیوں سے رجوع کریں گے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button