کورونا کی وجہ سے سعودی عرب میں پھنسے پاکستانی کیا کریں؟
طارق عزیز
"کام نہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف یہاں پہ کھانے پینے کا سامان اور پیسے ختم ہوگئے ہیں بلکہ پاکستان میں ہمارے گھروں میں بھی فاقوں کی نوبت آگئی ہے” یہ بات سعودی عرب کے دارالخلافہ ریاض میں مقیم پاکستانی مزدور خورشید خان نے بتائی جو دیگر لاکھوں پاکستانیوں کی طرح بےیار و مددگار وہاں موجود ہیں۔
کورونا وائرس کی وبا نے دنیا کی دیگر ممالک کی طرح سعودی عرب کو بھی لاک ڈاؤن پر مجبور کیا ہے جس کی وجہ سے پچھلے کئی ہفتوں سے تمام کاروبار زندگی بند پڑی ہیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے سعودی عرب میں مقیم پاکستانی بھی اس وقت شدید مسائل کا شکار ہیں- ایک طرف عالمی وبا کے دنوں میں اپنے ملک اورگھر سے دور انہیں بچوں اور گھر والوں کی فکر ستارہی ہے تو دوسری طرف ان کے اپنے حالات بھی قابل رحم ہیں۔
کئی دنوں سے جاری اس لاک ڈاون سے جہاں پاکستان میں دیہاڑی دار طبقہ متاثر ہوا ہے ادھر سعودی عرب میں مقیم اکثر پاکستانی جو آزاد ویزوں پر کام کرتے ہیں وہ بھی سخت حالات سے نبرد آزما ہیں۔ کام کی بندش کی وجہ سے نہ صرف ان پر خود فاقوں کی نوبت آئی ہیں بلکہ ان کے گھر والے جن میں سے اکثریت کے واحد کفیل سعودی میں محنت مزدوری کرکے اپنے خاندان کا پیٹ پالتے ہیں انہیں بھی مسائل کا سامنا ہے- تقریبا ایک مہینے سے جاری اس لاک ڈاون نے ان مزدوروں کو اپنے رہائش گاہوں تک محدود کردیا ہے اور اکثریت کے پاس اب اپنے ذاتی خرچے کے پیسے بھی نہیں رہیں۔
سعودی عرب کے دارلخلافہ ریاض میں مقیم ایک پاکستانی خورشید خان نے ٹی این این کو بتایا کہ موجودہ لاک ڈاون اور کرفیو میں سب سے ذیادہ متاثر وہ لوگ ہے جو آزاد ویزوں پر مقیم ہیں اور ان کے کام بند پڑے ہیں-
‘ایک، دو ماہ سے کام مکمل بند ہیں اور وہی لوگ سخت مشکلات میں ہیں جو باہر دیہاڑی وغیرہ کرتے تھیں’ خورشید نے کہا اور ساتھ میں شکوہ کیا کہ پاکستانی سفارت خانہ اب تک ایسا کوئی قدم نہیں اٹھاسکی جس سے یہاں مقیم پاکستانیوں کو کچھ فائدہ ملے-
ان کا کہنا تھا کہ حالات کی خرابی کے بعد اب گاؤں کے دکاندار بھی گھر والوں مزید قرض پرسودا نہیں دے رہیں- اگر خدانخواستہ یہی سلسلہ کچھ دن اور جاری رہا تو بہت بڑا نقصان ہوجائے گا-
آزاد ویزوں کے علاوہ سعودی میں مختلف کمپنیوں کے ساتھ کام کرنے والے افراد بھی کمپنیوں کی رہائش گاہوں تک محدود ہوگئے ہیں۔
ریاض ہی میں ایک کمپنی میں کام کرنے والے پاکستانی نوجوان رحیم خان بھی ان حالات میں کافی پریشان نظر آ رہے ہیں- ٹی این این سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لاک ڈاون کے ساتھ ہی کمپنی کی جانب سے پیغام مل گیا کہ اپنے رہائشگاہ تک محدود رہیئے اور جتنے دن کام بند ہوگا اس کا کوئی معاوضہ نہیں ملے گا-
رحیم خان کہتے ہیں کہ ہم اپنے کمرے تک محدود ہے اور ہمارے ساتھ کھانے کےلئے موجود سامان اور پیسے بھی ختم ہوگئے ہیں جو اس وقت یہاں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے-
کرونا کی وجہ سے جاری ان حالات میں سعودی عرب میں چھوٹے کاروبار والے بھی شدید پریشان ہے- ایسے ہی ایک روزگار سے منسلک نوجوان فیصل صالح حیات نے بتایا کہ دکانیں مکمل بند ہیں،ایک پیسے کا کام نہیں ہورہا جب کہ الٹا ہمارے ساتھ مستقل کام کرنے والے مزدور کا تنخواہ اور کرایہ اپنی جیب سے دینا پڑ رہا ہے-
ان کا کہنا تھا کہ کافی عرصے سے کاروبار انتہائی کمزور تھا لیکن اب کرایہ اور دیگر خرچوں کے مد میں اپنے جیب سے دینا پڑتا ہے-
پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور خورشید عالم سواتی کہتے ہیں کہ پہلے جب مخصوص اوقات کیلئے لاک ڈاون کیا گیا تو ہم پر اثر تو بہت پڑا لیکن کم ازکم ذاتی خرچے کا بندوبست ہو جاتا تھا لیکن اب مکمل کرفیو کے بعد ہم اپنے کمروں میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں اور ایک روپیہ کا امدن بھی نہیں- انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر یہ کرفیو اس طرح جاری رہی تو لوگوں کے مسائل اور بھی سنگین ہوجائیں گے-
خیبرپختونخوا کے ضلع شانگلہ میں موجود ایک دکاندار جس سے سعودی میں موجود مزدورں کے گھرانے سودا سلف خرید کر مہینے کے اخر میں انہیں پیسے بھیجتے تھے نے بتایا کہ ان کے اکثر گاہک نے پچھلے تین مہینوں سے پیسے نہیں بھیجے –
‘میری کوشش ہے کہ ان خاندانوں کے ساتھ بھرپور تعاون کرلو لیکن گاؑؤں کا ایک چھوٹے سے دکان میں مزید اتنی گنجائش نہیں’ انہوں نے کہا۔
ان کا کہنا تھا کہ مجبوری کی وجہ سے اب میں ان گھروں میں مزید سودا دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوں کیونکہ بازار کے دکاندار بھی ان حالات میں قرض پر سودا نہیں دے رہیں-
کرونا کی وجہ سے لاک ڈاون اور کرفیو کب تک جاری رہے گا اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ ایسا نہیں لگتا کہ لاک ڈاون اتنا جلد ختم ہوجائے گا-
سعودی وزیر صحت نے خبردار کیا ہے کہ” ملک میں کورونا وائرس کا ابھی ابتداء ہے، اگلے چند ہفتوں میں یہ تعداد کم ازکم 10 ہزار سے 2 لاکھ تک پہنچ سکتی ہیں”
یادرہے کہ سعودی عرب میں کورونا کی وباء سے اب تک 3651 افراد متاثر ہوئے ہیں جن میں 47 کی اموات واقع ہوچکی ہیں۔
نیویارک ٹایمز کی ایک رپورٹ کے مطابق سعودی شاہی خاندان کے تقریبا 150 شہزادے بھی کورونا کا شکار ہے جن میں ریاض کے 71 سالہ گورنر فیصل بن بندر بن عبدالعزیز السعود بھی شامل ہیں جو اس وقت انتہائی نگہداشت وارڈ منتقل کئے گئے ہیں”-
نیویارک ٹائم نے اپنے رپورٹ میں دعوی کیا ہے کہ سعودی فرمانروا شاہ سلمان جدہ کے قریب ایک جزیرے میں موجود اپنے محل منتقل ہوگئے ہیں-
جبکہ ممکنہ طور پر اس سال حج بھی کینسل کئے جانے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے جو 1798 سے بلاتعطل چلا آرہا ہے- اسی صورتحال میں پاکستانی مزدوروں کا کیا ہوگا اس بارے میں سوچ کر پاکستانی مزدور اور ان کے اہل خانہ مزید پریشان ہوجاتے ہیں-