خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

یوسف جان کا بھی سافٹ وئیر اپڈیٹ کر دیا گیا، مگر کیسے؟

افتخار خان

چند روز پہلے سوشل میڈیا پر بنوں سے تعلق رکھنے والے 3 افراد کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں وہ کرونا کے حوالے سے یہ نظم، ‘کورونا کچھ بھی نہیں صرف ایک دھوکہ ہے، لوگو! اس چال میں مت آنا’، سنا رہے ہوتے ہیں۔

ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد مقامی پولیس فوراً تینوں افراد کو پکڑ لیتی ہے اور لاک اپ میں بند ان کی ایک نئی ویڈیو جاری ہوتی ہے کہ وہ اپنے کئے پر پشیماں ہیں اور عوام کو گمراہ کرنے پر ان سے معافی کے طلبگار ہیں۔

دیکھتے ہی دیکھتے ان کی معافی والی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہو جاتی ہے اور زیادہ تر لوگ اس پر کہتے ہیں کہ پولیس نے ان کا سافٹ وئیر اپڈیٹ کردیا ہے۔

بنوں کی طرح شمالی وزیرستان کے ذاکر نامی ایک نوجوان کی بھی چند دن پہلے ایسی ہی ویڈیو سوشل میڈیا پر کافی پھیل گئی تھی کہ وہ کورونا کے حوالے سے دفعہ 144 سمیت کسی بھی حکومتی ہدایات پر عمل نہیں کرے گا کیونکہ کورونا وائرس کی وباء کا حقیقت سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔

اسی طرح معروف سابق ٹی وی اینکر اور موجودہ سوشل میڈیا سٹار یوسف جان نے بھی اسی موضوع پر ایک طویل دورانیے کا پروگرام اپنے فیس بک اور یوٹیوب اکاؤنٹس پر شئیر کیا تھا جس پر عوام کے علاوہ سنجیدہ حلقوں کی طرف سے بھی تنقید کی گئی تھی کہ اس طرح کے پروگرامات سے کورونا کے خلاف حکومتی اقدامات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔

یوسف جان اور بنوں کے ذاکر کی بھی معافی والی ویڈیوز آچکی ہیں اور بقول سوشل میڈیا صارفین کے ان کے سافٹ وئیر بھی اپڈیٹ کئے جا چکے ہیں۔

کورونا کے خلاف حکومتی اقدامات کا مذاق اڑانے والوں یا اس مہم کو نقصان پہنچانے والوں کی ذہنیت پولیس کیسے بدل لیتی ہے اس حوالے سے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کے لیگل اسسٹنٹ جاوید خان کہتے ہیں کہ کارِ سرکار میں مداخلت کرنے والے یا کسی ریاستی مقصد کو نقصان پہنچانے والے عناصر کے خلاف پولیس صرف اسی صورت میں کارروائی کر سکتی ہے جب ایسی کارروائیوں پر پابندی کے حوالے سے ڈپٹی کمشنر کی جانب سے دفعہ 144 نافذ کی جا چکی ہو۔

انہوں نے وضاحت کی کہ جب ڈپٹی کمشنر کوئی عمل دفعہ 144 کے تحت غیر قانونی قرار دیتا ہے تو خلاف ورزی کرنے والوں کو پولیس ایم پی او (مینٹیننس آف پبلک آرڈر) کے تحت گرفتار کرتی ہے، ڈپٹی کمشنر ہی انہیں ایک مہینے تک قید کی سزا دینے کا مجاز ہوتا ہے، معاملہ جب پروپیگنڈہ کے حوالے سے ہو تو پولیس گرفتاری کے بعد پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتی ہے کہ ایسا کرنے والا جان بوجھ کر لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے یا وہ خود غلط معلومات کا شکار ہو گیا ہے،
اگر ملزم جان بوجھ کر عوامی مفاد کو نقصان پہنچا رہا ہے تو ڈپٹی کمشنر انہیں جیل میں ڈال دیتا ہے اور اگر وہ نادانستگی میں ایسا کر رہا ہے تو پولیس انہیں ڈرا دھمکا کر ان کو موقف بدلنے پر مجبور کر دیتی ہے۔

شمالی وزیرستان میں انسداد کورونا مہم کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والے ذاکر کو گرفتار کرنے والے پولیس افسر کا کہنا ہے کہ ملزم کے خلاف کسی قسم کی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی تھی بلکہ اسے صرف دو گھنٹوں کے لئے حوالات میں بند کردیا گیا تھا اور اپنے جرم کی سنگینی اور سزا کی تفصیلات اسے بتا دی گئی تھیں جس پر اس نے فوراؑ اپنی غلطی تسلیم کرلی اور اپنی ویڈیو کے خلاف دوسری ویڈیو بنانے کے لئے رضامند ہوا۔

میرانشاہ تھانے کے ایک سینئیر پولیس افسر محمد ابراہیم کے مطابق ذاکر کے خلاف کسی کی تحریری شکایت موصول نہیں ہوئی تھی بلکہ پولیس نے خود اس کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ وہ ویڈیو صرف دو دن میں ڈیڑھ لاکھ لوگ دیکھ چکے تھے جس کی وجہ سے قومی مفاد کو نقصان کا اندیشہ تھا۔

حوالات سے رہائی کے بعد اب ذاکر کورونا وائرس کی روک تھام کے لئے حکومت اور سماجی ورکرز کے ساتھ ساتھ مہم میں شریک ہے اور اس حوالے سے باقاعدگی سے احتیاطی تدابیر پر مبنی ویڈیوز بھی شئیر کرتا رہتا ہے۔

ذاکر کے برعکس بنوں میں کورونا وائرس مہم کے خلاف نظم بنانے اور شئیر کرنے والے تین رکنی ٹیم کے خلاف پولیس نے باقاعدہ 14/16 ایم پی او کے تحت ایف آئی آر درج کی تھی لیکن پھر بھی انہیں جیل بھیجنے کے بجائے حوالات میں ایک رات گزارنے کے بعد رہا کر دیا گیا تھا۔

ذرایع کے مطابق ان ملزمان کی ذہنیت بدلنے کے لئے پولیس نے تھوڑی سختی سے کام لیا تھا اور مزید کارروائی کی دھمکی پر ہی انہوں نے پرانی ویڈیو ڈیلیٹ کردی تھی۔

حکومتی وکیل جاوید خان کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر ریاست مخالف یا قومی مفاد کے خلاف پروپیگنڈہ اگر چھوٹی سطح کا ہو اور ملزمان بھی معلوم ہوں تو پولیس خود کارروائی عمل میں لاتی ہے لیکن اگر پروپیگنڈہ بڑے لیول کا ہو اور باقاعدہ منصوبہ بندی سے کیا جا رہا ہو یا ملزمان نامعلوم ہوں تو ایسی صورت میں پولیس ایف آئی اے سے تعاون طلب کرتی ہے جو ملزمان ٹریس کرنے میں ان کی معاونت کرتی ہے۔

یوسف جان کے حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ انہیں پروگرام کے نشر ہونے کے بعد لوگوں کے رد عمل سے اندازہ ہو گیا تھا کہ کتنی بڑی غلطی کر بیٹھے ہیں لیکن پھر بھی قانون نافذ کرنے والا ایک ادارہ انہیں آفس بلوا کر ان کی غلطی کی سنگینی سمجھا چکا تھا جس پر انہوں نے نہ صرف حکومت سے معافی مانگی بلکہ اپنے فینز کے نام بھی ویڈیو جاری کردی کہ پروگرام کا مقصد اس مہم کو نقصان پہنچانا نہیں تھا بلکہ ایسا نادانستگی میں ہوا ہے۔

بعدازاں یوسف جان نے اپنا اگلا پروگرام اس موضوع پر کیا تھا کہ کورونا سے حفاظت کے لئے حکومت اقدامات پر عمل کریں اور بلا ضرورت گھروں سے باہر نہ نکلیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button