خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

خواجہ سراوں پر تشدد اور قتل کے واقعات میں اضافے کا ذمہ دار کون؟

 

ناہید جہانگیر

خیبرپختونخوا میں خواجہ سراوں پر تشدد اور قتل کے واقعات میں پچھلے کچھ عرصے سے اضافے کے حوالے سے پشاور کی معروف خواجہ سرا صنایا خان کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات میں اکثر اوقات ان لوگوں کی اپنی غلطی ہوتی ہے۔ وہ کہتی ہیں خواجہ سرا دوست بناتے وقت ان کا قوم قبیلہ اور ماضی نہیں دیکھتے، بس جو بندہ دو تین میٹھی باتیں کرلے تو ان سے دوستی کرلیتے ہیں۔

‘دوستی ان سے کروں جو عزت دینا جانتا ہو اور خاندانی ہو اگر نہیں تو وہ وہی دوست آپ پر تشدد کریں گا اور جان سے مارسکتا ہے’ یہ بات پشاور کی صنایا خان نے ٹی این این کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں کہی۔

صنایا خان نےبھی جب 9 سال پہلے تقریبات میں باقاعدہ طور پر ڈانس شروع کیا تو خاندان نے کافی مخالفت کی لیکن بعد میں انہوں نے اپنی فیملی کو قائل کیا۔ صنایا خان بھی اور خواجہ سراوں کی طرح اپنی فیملی کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے دوستوں کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے لیکن وہ ہفتے میں ایک مرتبہ ضرور گھر جاتی ہے اپنی ماں اور بہن بھائیوں سے ملتی ہیں۔

صنایا خان کو زیادہ کھانا پکانے کا شوق نہیں ہے لیکن پھر بھی چاول، چکن اور سبزی بناتی ہے اور انکو زیادہ سبزی کھانے کا شوق ہے۔

صنایا خان نے ڈی کام کرنے کے بعد تعلیم کو خیر آباد کہہ دیا کیونکہ ایک خواجہ سرا کے طور پر اسکو معاشرے کی طرف سے مشکلات کا سامنا تھا ورنہ وہ بھی ڈانس کے علاوہ دفتری کام بھی کرسکتی تھی اگر حکومت کی جانب سے خواجہ سرا کے لئے نوکری کی کوئی سہولت انکو ملتی۔

خواجہ سراوں کو مسائل کے حوالے سے صنایا خان کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ معاشرے سے انکو بے شمار مسائل ہیں اکثر تقریبات سے واپسی پر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ان کو مار پیٹ کر رقم بھی لوٹ لیتے ہیں اور پھر پوچھنے والا کوئی بھی نہیں ہوتا۔

خواجہ سراوں پر تشدد اور انکو قتل کے حوالے سےصنایا خان نے اپنی ہی خواجہ سراوں کو زیادہ قصور وار ٹہرایا کہ خواجہ سرا کسی سے بھی دوستی کر لیتے ہیں بغیر سوچے سمجھے کہ یہ بندہ آپکے دوست بننے کا قابل ہے کہ نہیں جو خاندانی لڑکا ہوگا وہ کبھی بھی کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا، وہ دوستی اور احترام کرنا جانتا ہے تو انکے خیال میں ہر کسی سے دوستی نا کریں اور دوسری اہم بات خواجہ سرا اپنی زبان بھی کنٹرول میں رکھے۔اچھائی کا جواب اگر اچھائی سے نہیں دے سکتے تو خاموشی بہتر ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر برائی کا جواب ہم خواجہ سرا بھی برائی سے دیں تو پھر ہم میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔

خواجہ سرا کے حقوق کے لئے کام کرنے والے سماجی کارکن تیمور کمال کے مطابق سال 2015 سے اب تک تقریبا 68 خواجہ سرا قتل ہوئے ہیں جن میں زیادہ ترغیرت کے نام پر قتل ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نوشہرہ مایا قتل کیس میں انکے چچا اور بھائی ملوث تھے، اسی طرح پشاور صدر میں نازو کو اپنے ہی دوست نے فلیٹ میں قتل کیا تھا،جس کی لاش کو گھروالے نہیں لے رہے تھے لیکن جب دیت کی بات ہوئی تو پھر گھر والے راضی ہوئے اور دیت کی رقم وصول کیں۔

خواجہ سراوں کو انصاف کے حوالے سے تیمور کمال نے بتایا کہ رپورٹ بھی درج کی جاتی ہے ملزم کو گرفتار بھی کیا جاتا ہے مقدمہ بھی درج ہوتاہے لیکن پایا تکمیل تک اس لیے نہیں پہنچتا کیونکہ اس میں کمزروی دونوں فریقین کی ہوتی ہیں۔

ایک تو خواجہ سرا کیس کو وقت نہیں دے سکتا کہ صبح سویرے جاکرعدالت میں پیش ہو اور پھر یہ سلسلہ 6 یا 7 سال تک رہتا ہے تو درمیان میں ہی وہ فالو کرنا چھوڑ دیتا ہے۔

دوسری اہم بات یہ کہ پولیس کی وجہ سے کمزور اور ناقص دفعہ لگتا ہے اورپولیس دفعہ 302 مجرم پر لگا لیتا ہے جس میں بہت آسانی سے مجرم کی ضمانت ہوسکتی ہے بعد میں وہ متاثرہ خاندان کے ساتھ صلح کرلیتا ہے، کیس بعد میں خارج کیا جاتا ہے۔

زیادہ تر خواجہ سرا والدین اور دوست کے ہاتھوں غیرت کے نام پر قتل ہوتے ہیں، والدین کے لئے باعث شرم ہوتا ہے کہ انکا بیٹا لڑکیوں کا حلیہ اپنا کر تقریبات میں ناچ گانا کریں تو اکثر خواجہ سرا کے قتل کے پیچھے اپنے والدین یا خاندان کے ہی افراد کا ہاتھ ہوتا ہے۔

تیمور کمال نے دوسری بڑی وجہ خواجہ سراوں کے قتل کے حوالے سے یہ بتائی کہ زیادہ تر انکے اپنے ہی دوست انکا قاتل نکلتے ہیں اسکی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جس لڑکے دوست سے انکا تعلق ہوتا ہے وہ خواجہ سرا دوست کو کسی اور سے تعلق ،دوستی یا ملنے سے منع کرتا ہے اور جب انکو یہ لگتا ہے کہ انکی بات نہیں مانی جارہی تو خواجہ سرا کو قتل کیا جاتا ہے اور پھر بعد میں سامنے آتا ہے کہ دوست نے ہی انکو قتل کیا ہے۔

تیمور کمال  نے کہا کہ انکے مطابق خواجہ سرا کا اتنا قصور بھی نہیں ہوتا کہ جتنی آسانی سے انکو قتل کیا جاتاہے، انسان آزاد ہیں وہ جس سے شادی یا دوستی کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، کسی انسان کو یہ حق بالکل بھی نہیں حاصل کہ دوسرے انسان کی ذاتی زندگی میں مداخلت کریں یا قتل کریں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button