خیبر پختونخوا

والدین کو گرمیوں کی چھٹی کی فیس دینی ہے یا نہیں؟

افتخار خان

مارچ کا مہینہ آنے کو ہے، امتحانات کے دن قریب ہیں جبکہ نجی سکولوں نے فیسوں میں اضافے کے حوالے سے تیاریاں بھی پکڑ لی ہیں لیکن خیبر پختونخوا میں پرائیویٹ سکولز ریگولیٹری اتھارٹی کی جانب سے ہائی کورٹ کے احکامات کے باوجود فیسوں کے تعین کا کوئی طریقہ کار سامنے نہیں آسکا ہے۔

نجی سکولوں کی فیسوں میں سالانہ کتنا اضافہ ہونا چاہئے؟ ایک سکول میں پڑھنے والے ایک سے زیادہ بہن بھائیوں کو فیس میں کتنی رعایت ملنی چاہئے؟ گرمیوں کی چھٹیوں کی فیسیں دینی چاہئیں یا نہیں اور اگر دینا بھی ہیں تو ٹوٹل یا صرف ٹیوشن فیس؟

یہ اور اس سے متعلق اور بہت سے سوالات پچھلے سال اس وقت ہزاروں والدین کے لئے درد سر بن گئے تھے جب مختلف سکولوں نے ان سے گرمیوں کی چھٹیوں کی فیسوں کا مطالبہ کیا تھا۔ میڈیا میں خبریں آنے، سوشل میڈیا پر بحث چھڑنے اور سکولوں کے منتظمین اور مالکان سے والدین کی تو تو میں میں کے بعد اس حوالے سے صوبے کے 9 افراد نے پرائیویٹ سکولوں کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں درخواستیں جمع کیں اور کیس شروع ہوا۔

کئی سماعتوں کے بعد پشاور ہائی کورٹ نے جب فیصلہ والدین کے حق میں دیا اور سکولوں کو گرمیوں کی چھٹیوں کی فیسیں وصول کرنے سے منع کردیا تو پرائیویٹ سکولوں کی تنظیم فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ چلی گئی۔ سپریم کورٹ نے سکولوں کو چھیٹیوں کی صرف ٹیویشن فیس قسطوں کی شکل میں وصول کرنے کی اجازت دی اور ہائی کورٹ کو بھی کیس واپس بھیجتے ہوئے ہدایت کی کہ اس کا دوبارہ جائزہ لیا جائے۔

پشاور ہائی کورٹ نے صوبے میں پرائیویٹ سکولوں کی فیسوں کے معاملے پر کیس کئی سماعتوں کے بعد گزشتہ سال اکتوبر میں ان ہدایات پر ختم کر دیا تھا کہ پرائیویٹ سکولز ریگولیٹری اتھارٹی ہی 60 دن کے اندر اندر اس کا تعین کرے گی لیکن پانچ مہینے گزرنے کے باوجود ریگولیٹری اتھارٹی اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہ کرسکی۔

عدالت نے صوبے میں موجود تمام سکولوں کی رجسٹریشن، طلبا کو دی جانے والی سہولیات اور دیگر لوازمات کی بنیاد پر ان کی درجہ بندی، تمام درجوں کے الگ فیس سٹرکچر اور فیسوں کی بنیاد پر اساتذہ کی کم از کم تنخواہوں کو طے کرنے کی ذمہ داریاں بھی ریگولیٹری اتھارٹی کو سونپ دی تھیں۔

ریگولیٹری اتھارٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ اس سلسلے میں ہائی کورٹ کے احکامات کے مطابق سیکرٹری ایجوکیشن، ڈائریکٹر ایجوکیشن، ایم ڈی ریگولیٹری اتھارٹی اور پرائیویٹ سکولوں کے منتخب نمائندگان پر مشتمل بورڈ کا ایک اجلاس ہوچکا ہے لیکن جب اجلاس میں زیر بحث آئے معاملات اور فیصلوں کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے معلومات فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔

اس حوالے سے اتھارٹی کے منیجنگ ڈائریکٹر تاشفین حیدر نے صرف یہ کہا کہ فیسوں کے حوالے سے کئے گئے فیصلے آنے والے چند دنوں میں نافذ کر دیئے جائیں گے لیکن مزید تفصیلات دینے سے انہوں نے بھی معذرت کر لی۔

دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ فیسوں کے تعین کے معاملے پر ریگولیٹری اتھارٹی اور پرائیویٹ سکولز ایسوسی ایشن ابھی تک متفق نہیں ہو سکی ہیں اور خدشہ ہے کہ سکولز نئے تعلیمی سال کے لئے بھی نہ صرف فیسوں میں اضافہ اپنی مرضی سے کریں گے بلکہ عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے والدین سے پروموشن فیس بھی وصول کی جائے گی۔

اس حوالے سے پشاور کے سینئر صحافی محمد ہارون کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کی سب سے بڑی وجہ پرائیویٹ سکولوں کی ہٹ دھرمی اور انہیں قابو کرنے کے لئے اتھارٹی کے پاس اختیارات کا نہ ہونا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک کے دوسرے صوبوں کی طرح خیبر پختونخوا میں بھی بڑے اور نامی گرامی سکول یا تو ممبران اسمبلی کے ہیں اور یا دوسرے بڑے عہدیداران اور بااثر افراد کے جو ریگولیٹری اتھارٹی تو کیا سپریم کورٹ کے احکامات کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔

محمد ہارون نے مزید بتایا کہ سپریم کورٹ پہلے ہی ان سکولوں کو احکامات دے چکی ہے کہ فیس 2017 کی فیسوں کے مطابق فکس کریں لیکن سکولوں نے ان احکامات کو بھی ہوا میں اڑا دیا۔

بورڈ کے اجلاس اور اس میں کئے گئے فیصلوں کے مطابق ہارون کا بھی یہی کہنا تھا کہ سکولوں کی کٹیگرائزیشن اور فیسوں کے تعین کے طریقہ کار کے حوالے سے ڈرافٹ پہلے ہی تیار کیا جا چکا ہے لیکن اس کو عملی کرنا بہت مشکل نظر آ رہا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button