خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

پورے سب ڈویژن میں خواتین ڈاکٹرز کی ایک بھی پوسٹ موجود نہیں

خالدہ نیاز

لکی مروت کے سب ڈویژن بیٹنی میں لاکھوں آبادی کے لیے ایک بھی خاتون ڈاکٹر موجود نہیں ہے جسکی وجہ سے مقامی خواتین کو مشکلات کا سامنا ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق خواتین کو زچگی یا صحت کے دوسرے مسائل پیش آنے کی صورت میں ڈی ایچ کیو لکی مروت یا بنوں لےجانا پڑتا ہے جوکئی گھنٹوں کے فاصلے پرپڑتے ہیں۔

نہ صرف پورے سب ڈویژن میں خواتین ڈاکٹرز کا مسئلہ ہے بلکہ کئی علاقوں میں بی ایچ یوز میں لیڈی ہیلتھ ورکرز تک موجود نہیں ہے۔ انہیں میں سے ایک شادی خیل بی ایچ یو بھی شامل ہے جہاں کافی عرصے سے ایل ایچ وی موجود نہیں ہے۔

مقامی صحافی شاکر بیٹنی کے مطابق ان کے علاقے شادی خیل میں صحت کے مراکز تو ہیں لیکن اس میں خواتین سٹاف اور ایل ایچ وی نہیں ہے جس کی وجہ سے کئی خواتین زچگی کے دوران یا تو خود جان کی بازی ہار جاتی ہیں یا پھر اپنے اولاد کو کھودیتی ہیں۔

ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران شاکر بیٹنی نے کہا کہ دعوے تو بہت کئے جاتے ہیں کہ لوگوں کی صحت کی سہولیات دی جارہی ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔

شاکر بیٹنی نے کہا کہ 10 ہزار نفوس پرمشتمل علاقے میں ایک بی ایچ یو، ایک چلڈرن ہیلتھ کمیونٹی اور ایک سول ڈسپنسری موجود ہے لیکن خواتین سٹاف نہ ہونے کی وجہ سے ایمرجنسی کی صورت میں خواتین اور باقی مریضوں کو بنوں یا ڈی ایچ کیو لکی مروت لے جانا پڑتا ہے لیکن وہاں پہنچنے میں دو سے تین گھنٹے لگتے ہیں، سڑکیں خراب ہیں اور ٹرانسپورٹ کا بھی مسئلہ ہوتا ہے تو اکثر مریض راستے میں ہی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

انہوں نے الزام لگایا کہ صحت کے مراکز میں تعینات مرد ڈاکٹرز بھی صحیح ڈیوٹی نہیں کرتے کہ ان میں اکثرغیرمقامی افراد بھرتی ہوئے ہیں اور وہ نہیں کرسکتے کہ روزانہ کی بنیاد پرڈیوٹی کرے۔

مقامی شخص ملک خلوت نے اس حوالے سے ٹی این این کو بتایا کہ ان کے علاقے میں خواتین کو بچے کی پیدائش کے وقت سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ خواتین سٹاف نہ ہونے کے ساتھ ساتھ بی ایچ یوز میں کوئی اور سہولت بھی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ شادی خیل بی ایچ یو سے ایل ایچ وی کی ٹرانسفرہوچکی ہے لیکن ابھی تک دوسری ایل ایچ وی یہاں نہیں آئی جس کی وجہ سے بھی مشکلات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بی ایچ یو میں پانی کا بھی انتظام نہیں ہے اور سولر سسٹم بھی نہیں ہے۔

ملک خلوت نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ بی ایچ یو میں خواتین سٹاف سمیت باقی سہولیات فراہم کی جائیں اور ایمبولینس کا بھی انتظام کیا جائے کہ ان کا علاقہ پہاڑی اور دور ہے اور راستے خراب ہیں اور اکثرمریض راستے میں ہی دم توڑ جاتے ہیں۔

محکمہ صحت کے قواعد وضوابط کے مطابق بی ایچ یو میں ایک میل ڈاکٹر، ایک ایل ایچ وی، ایک خاتون میڈیکل ٹیکنیشن اور ایک مرد ٹیکنیشن کا ہونا لازمی ہوتا ہے۔

دوسری جانب ڈپٹی ڈی ایچ او بیٹنی سب ڈویژن ڈاکٹر کفایت اللہ بیٹنی نے ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران بتایا کہ پہلے شادی خیل میں جو ایل ایچ وی تھی وہ بنوں سے تعلق رکھتی تھی اور صحیح کام نہیں کررہی تھی اور مقامی افراد کو ان پر اعتراضات تھے تو اس لئے اس کو یہاں سے فارغ کردیا اور ہماری کوشش ہے کہ مقامی ایل ایچ وی کو یہاں تعینات کیا جائے کہ وہ 24 گھنٹے ڈیوٹی سرانجام دیں سکیں کہ خواتین کے مسائل میں کمی آسکیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایل ایچ وی کے علاوہ شادی خیل بی ایچ یو میں تمام سٹاف موجود ہیں۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ پورے سب ڈویژن میں کوئی لیڈی ڈاکٹر موجود نہیں ہے کیونکہ یہاں ان کی کوئی پوسٹ نہیں ہے البتہ کئی بی ایچ یوز میں ایل ایچ ویز موجود ہیں۔ ڈاکٹر کفایت اللہ بیٹنی نے کہا کہ بی ایچ یوز میں سولرائزیشن کا مسئلہ بھی جلد حل ہوجائے البتہ باقی سہولیات موجود ہیں۔

وہ ڈاکٹر جو ڈیوٹی نہیں کرتے اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ وہ وقتا فوقتا ایسے عملے کو سزائیں دیتے رہے ہیں اور ان سے تنخواہیں بھی کاٹی جاتی رہی ہے اور اس کے علاوہ ابھی آئی ایم یو کے عہدیدار نے بھی چارج سنبھال لیا ہے جس سے صحت کی سہولیات بروقت پہنچانے میں مزید بہتری آجائے گی۔

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button