‘بند گراؤنڈز کھلنے سے نیا ٹیلنٹ سامنے آئے گا’
ذیشان کاکاخیل
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ جہاں کھیل کے میدان آباد ہوتے ہیں وہاں ہسپتال ویران ہوتے ہیں۔ بے حد ٹیلنٹ کی موجودگی کے باوجود سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے خیبرپختونخوا میں صحت مندانہ سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں،خیبرپختونخوا کے بیشتر اضلاع میں گراونڈ نہیں ہے جبکہ جہاں گراونڈ موجود بھی ہے وہاں سہولیات کی عدم موجودگی کے باعث وہ ویران پڑے ہیں، خدا خدا کرکے بلاخر حکومت کونوجوانوں کو سہولیات کی فراہمی کا خیال آہی گیا اور صوبہ بھر کے تمام اضلاع میں کھیلوں کو فروغ دینے کے لئے ضلع سطح پرکھیلوں کے میدانوں کے قیام کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور اسی سلسلے میں خیبرپختونخوا حکومت نے ضلعی سطح پر کھیلوں کے فروغ کے لئے جامع پلان بھی تیار کر لیاہے۔
5 سال کے دوران خیبرپختونخوا کے تمام اضلاع بشمول نئے ضم شدہ اضلاع میں 1 ہزار پلینگ فیسلٹیز بنانے کا فیصلہ کر لیا گیا،5 سال کے دوران صوبہ بھر کے کھیلوں کے میدانوں کی از سر نو تعمیر و مرمت اور کھیلوں کے نئے مکانات تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کرلی گئی ہے۔منصوبے کے تحت نئے ضم شدہ اضلاع میں بھی کھیل کود کو فروغ دینے کے لئے خصوصی منصوبہ بندی کے تحت کھیلوں کے فروغ پر توجہ دی جائے گئی۔
صوبے کی تاریخ میں پہلی بار خیبرپختونخوا کے عوام کے لئے عوامی مقامات پر ٹینس کورٹ، اوپن آئیر جم سمیت دیگر منصوبے شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہیں اور ابتدائی طور پر سات ڈویژن کے 35مقامات پر اوپن جم اور سکواش کورٹ کےلئے سامان کی ترسیل بھی شروع کردی گئی ہیں،اور بہت جلد اس کو عوام کے لئے کھولابھی جائے گا۔
دستاویزات کے مطابق 5 ہزار 500 ملین روپے کی لاگت سے صوبہ بھر کے کھیلوں کے مقامات میں سہولیات کی کمی اور نئے مقامات تعمیر کرنے کا بھی فیصلہ کر لیا گیا ہے، ایک ہزار گراونڈ کے پراجیکٹ ڈائریکٹر مراد علی مہمند کے مطابق وہ 2023تک خیبرپختونخوا کے تمام اضلاع میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے ویژن کے مطابق کھیلوں کی سہولت کی فراہمی کو یقینی بنائیں گے،ان کے مطابق انہوں نے چند روز قبل جمرود سپورٹس کمپلیکس کا دورہ کیا جہاں پر کرکٹ اکیڈمی کی مرمت، باسکٹ بال کورٹ اور تماشائیوں کے لیے گرل انسٹالیشن کے احکامات جاری کیے ہیں۔
ان کے مطابق تمام کھیلوں کے میدانوں کے باقاعدہ دورے کررہے ہیں اور جہاں جہاں سہولیات کی کمی ہے اس کو پورا کیا جارہا ہے، انہوں نے بتایا کہ صوبہ بھر کے تمام ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز کو نئے گراونڈز کی تعمیر،مرمت اور دیگر امور کے لئے جلد از جلد پی سی ون تیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔ پراجیکٹ ڈائریکٹر نے بتایا کہ انہوں نے مشتاق غنی سپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی سے ملاقات کی اور ان کوبھی پراجیکٹ کے حوالے سے بریفنگ دی گئی جس پر انہوں نے ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے جبکہ سپیشل سیکرٹری اعلیٰ تعلیم سے بھی ملاقات میں انہیں مختلف سرکاری سکول و کالجز کے متعلقہ گراﺅنڈز کو سپورٹس ڈائریکٹوریٹ کے حوالے کرنے کی درخواست کی ہے۔
مراد علی مہمند نے بتایا کہ صوبے میں بیشتر گراﺅنڈ ایسے ہے جو کئی سالوں سے بند پڑے ہیں جس کے باعث مقامی کھلاڑیوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، لیکن اب ان گراونڈز کو کھولنے سے کھیلوں کو فروغ ملے گا اور نیا ٹیلنٹ سامنے آئے گا۔
دستاویزات کے مطابق ان ایک ہزار فیسلیٹشن سنٹرز میں تماشائیوں کے لئے بنیادی ضروریات پانی، واش رومز اور فٹ بال ،ہاکی پولز کی تنصیب کی جائے گئی۔دستاویزات کے مطابق پولو کو مزید فروغ دینے کے لئے اپر اور لوئر چترال میں 56ملین اور63ملین روپے کی لاگت سے گراونڈز کی توسیع اور مرمت کی جائے گئی۔کھیلوں،نوجوانوں،خواتین اور کلچر کے لئے سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ پشاور نے سال 2019-20 کے لئے 1ملین روپے مختص کئے ہیں جس پر پشاور سٹی کے مختلف کالجز میں کھیلوں اور ثقافتی سرگرمیوں کا انعقاد کیا گیا۔
ایڈیشنل ڈائریکٹر اسٹیبلشمنٹ محکمہ کھیل و نوجوانان کاشف کے مطابق 18ویں ترمیم کے بعد سپورٹس،یوتھ آفیئر کو صوبوں کے حوالے کردیا گیا ہے،ان کے مطابق سالانہ اے ڈی پی میں کل بجٹ کا 5فیصد کھیل،نوجوانان اور کلچر کے لئے مختص کیا گیا ہے جس میں 2فیصد یوتھ اور3فیصد کھیل کے لئے مختص کیا گیا،انہوں نے بتایا کہ ہر ضلع کااپنا بجٹ مقرر کیا جاتا ہے جو باقاعدہ متعلقہ علاقے کے ڈپٹی کمشنر کی منظوری کے بعد ہی استعمال کیا جاتا ہے۔
دوسری جانب خاتون کھلاڑیوں کے مطابق موجودہ سپورٹس بورڈ کی ڈائریکٹر رشیدہ غزنوی خواتین کھلاڑیوں کو آگے لانے کے لئے سنجیدہ نہیں کیونکہ زنانہ کوچز موجود ہونے کے باوجود بھی زیادہ خواتین کھلاڑیوں کو مرد کوچنگ دے رہے ہیں جس کی وجہ سے بیشتر کھلاڑی ٹریننگ نہیں کرتی۔ اس سلسلے میں جب خاتون کھلاڑی سارہ خان سے بات کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ پہلے حکومت نے خاتون کھلاڑیوں کو نظر انداز کیا تھا لیکن اب موجودہ حکومت خواتین کھلاڑیوں کو آگے لانے کے لئے اقدامات کر رہی ہے،انہوں نے بتایا کہ حکومت کو چاہیئے کہ سکول اور کالجز کی سطح پر فیمل کوچز کو بھرتی کیا جائے تاکہ نچلی سطح پر خواتین کھلاڑیوں کو ایک پلٹ فارم مہیا ہوسکے۔
سارہ خان کے مطابق انہوں نے کئی نیشنل گیمز جیتے ہیں جبکہ صوبائی کھیلوں میں بھی بے شمارمیڈلز جیتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق حکومت نے ایک جانب نئے منصوبے شروع کئے ہے تو دوسری جانب حال یہ ہے کہ محکمہ کھیل و سیاحت کا قبائلی اضلاع سمیت صوبہ بھر میں136 پہلے سے ہی جاری منصوبوں پر اب متعلقہ حکام کی غفلت اور چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے کام سست روی کا شکار ہے،اور ان منصوبوں کامقررہ وقت تک مکمل ہونا مشکل نظر آرہا ہے۔
ذرائع کے مطابق محکمہ کھیل و سیاحت نے صوبے کے بندوبستی اضلاع میں 76منصوبے شروع کئے ہیں جس کیلئے 5ارب 90کروڑ70لاکھ روپے مختص کئے گئے ہیں اس میں آرکیالوجی کیلئے 43کروڑ30لاکھ روپے مختص کئے گئے اور9کروڑ16لاکھ روپے جاری کئے گئے ہیں، اکیس فیصد بجٹ استعمال کیا گیا ہے۔ کلچر کیلئے 20کروڑ روپے مختص کئے گئے 16کروڑ 50لاکھ روپے جاری کئے گئے ہیں جس میں اب تک ایک روپیہ تک خرچ نہیں کیا گیا ہے ، سپورٹس میں 2ارب 16کروڑ90لاکھ مختص ہے تاہم 1ارب61کروڑ60لاکھ روپے جاری کئے گئے ہیں اس میں بھی اکیس فیصد فنڈز استعمال ہوا ہے۔
ٹوارزم میں 2ارب86کروڑ50لاکھ روپے مختص کئے ہے اور اس میں 2ارب41کروڑ90لاکھ روپے جاری ہوئے ہے جس میں فنڈز کا استعمال 14فیصد ہے ، یوتھ کیلئے 24کروڑ روپے مختص کئے ہے جس میں 20کروڑ کا فنڈز جاری ہوا ہے جس میں سب سے زیادہ 62فیصد فنڈز استعمال ہوا ہے ان تمام 76منصوبوں کا کل استعمال 18اعشاریہ 70فیصد ہے۔
ضم اضلاع میں 50منصوبے شروع کئے گئے ہیں جس کیلئے 47کروڑ60لاکھ روپے مختص ہے ، ان پچاس منصوبوں میں آرکیالوجی کیلئے 80لاکھ مختص ہے جس میں 20لاکھ جاری ہوئے ہے تاہم فنڈز کا استعمال اعشاریہ 95فیصدہے، سپورٹس اینڈ کلچر کیلئے 42کروڑ 70لاکھ مختص ہے جس میں 17کروڑ90لاکھ روپے جاری ہوئے ہے اب تک بیس فیصد استعمال ہوا ہے ، ٹوارزم کیلئے پچاس لاکھ جس میں دس لاکھ جاری ہوئے ہے جس میں تمام جاری شدہ فنڈ کو استعمال کیا گیا ہے ، یوتھ کیلئے 3کروڑ50لاکھ روپے مختص ہے تاہم اس میں اب تک کوئی ریلیز نہیں ہوئی ہے۔ ضم اضلاع کیلئے وفاقی حکومت کی جانب سے دس سالہ پیکج میں دئیے جانے والے فنڈ میں سے دس منصوبوں کو ہنگامی بنیادوں پر مکمل کرنے کو شامل کیا گیا ہے جس کیلئے 5ارب12کروڑ روپے کا فنڈز مختص کیا گیا ہے جس میں سے اب تک 75کروڑ روپے جاری ہوئے ہیں مگر اس میں سے کسی بھی منصوبے پر تاحال کام شروع نہیں ہوا ہے۔