خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

کیا سرعام پھانسی کی سزا کا آغاز عوض نور کے قاتل سے ہوگا؟

 

خالدہ نیاز

‘ہم چاہتے ہیں کہ حکومت بچوں سے جنسی زیادتی کے مجرموں کو سرعام پھانسی دینے کے حوالے سے قانون سازی جلد از جلد مکمل کرے اور اس پر عمل درآمد کی ابتدا عوض نور کے قاتل سے کیا جائے’

ان خیالات کا اظہار نوشہرہ کے علاقے کاکاصاحب سے تعلق رکھنے والی عوض نور کے چچا یوسف جہان نے ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران کیا۔ سات سالہ بچی عوض نور کو 19 جنوری کو مبینہ جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تھا جس کے بعد نامزد دونوں ملزمان گرفتار کئے جاچکے ہیں۔

عوض نور کے قتل کے بعد نہ صرف اہل علاقہ غم وغصے میں مبتلا ہے بلکہ پورے صوبے کے باقی مختلف علاقوں میں بھی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور سماجی ورکر مطالبہ کررہے ہیں کہ اس حوالے سے سخت قانون سازی کی جائے۔ سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے سے ایک بحث جاری ہے اور بعض صارفین کا مطالبہ ہے کہ ایسے مجرموں کو سرعام پھانسی دی جائے۔

یوسف جہان نے بتایا کہ ان کے احتجاج اور مظاہروں کا مقصد بچوں سے زیادتی کے واقعوں کی روک تھام اور حکومت پرسخت قانون سازی کے لیے دباو بڑھانا ہے’ ہم چاہتے ہیں کہ جو کچھ ہماری بچی کے ساتھ ہوا ایسا کسی اور کے ساتھ نہ ہو اور ملزم کو سرعام پھانسی دی جائے’

عوض نور کے قتل کے بعد گرفتار ملزمان سے تفتیش جاری ہے اور ابتدائی میڈیکل رپورٹ میں بچی کے ساتھ جنسی زیادتی کی تصدیق بھی ہوئی ہے لیکن اس حوالے سے تصدیق کے لیے عوض نور کے ڈی این اے ٹیسٹ لاہور بھجوائے جاچکے ہیں اور اتنے دن گزرنے کے باوجود بھی ڈی این اے کی رپورٹ موصول نہ ہوسکی تاہم عوض نور کے چچا کا کہنا ہے کہ وہ پولیس کی اب تک کی کارکردگی سے مطمئن ہے لیکن اگر ان کو لگا کہ ان کو انصاف نہیں مل رہا تو وہ سڑکوں پرنکل آئیں گے۔

یوسف جہان نے کہا کہ عوض نور کے واقعے کے بعد پورا علاقہ سوگوار ہے اور اپنے بچوں کے حوالے سے خوف میں مبتلا ہے اور بچے والدین کے بغیر سکول جانے سے کتراتے ہیں اس کے علاوہ والدین بھی بچوں کو اکیلا نہیں چھوڑتے۔

دوسری جانب ایس پی انویسٹی گیشن نوشہرہ سجاد احمد کے مطابق احتجاج کرنا ہرکسی کا بنیادی حق ہے تاہم عوض نور کے خاندان والوں کے ساتھ پولیس بھرپور تعاون کررہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ‘بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی واقعات میں اضافے کی ایک بڑی وجہ موبائل فون ہے’

‘بچے ایک منٹ کے لیے نظروں سے اوجھل ہوجائیں تو خوف طاری ہوجاتا ہے’

خیال رہے کہ عوض نور قتل کیس میں گرفتار ملزم ابدار ولد عبد اللہ شاہ نے اعتراف کیا ہے کہ عوض نور کو کھیت میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا اور جب اس نے چیخ وپکار شروع کی تو اس کا گلہ دباکر پانی کی ٹینکی میں پھینک دیا۔ ملزم نے یہ بھی کہا ہے کہ اس نے بدلہ لینے کے لیے عوض نور کو قتل کیا کیونکہ عوض نور کا ماموں اسے کئی بار جنسی زیادتی کا نشانہ بنا چکا ہے۔

پولیس کے مطابق نوشہرہ میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ ایس پی انویسٹی گیشن نوشہرہ سجاد احمد کے مطابق 2019 میں ان کے پاس 15 ایسے کیسز رپورٹ ہوئے جن میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی یا کوشش کی گئی جب کہ 2020 میں صرف جنوری کے مہینے میں ان کے پاس رجسٹرڈ کیسز کی تعداد 6 ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافے کے بعد قومی اسمبلی نے بھی ہفتے کے روز یعنی 7 فروری کو ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بچوں سے زیادتی اور قتل کے مجرموں کو سرعام پھانسی دے جائے۔ یہ قرارداد وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان کی جانب سے قرارداد پیش کی گئی جو کثرت رائے سے منظور کرلی گئی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button