پشاور بی آر ٹی لاگت، شہباز شریف اور پرویز خٹک ٹوئٹر پر آمنے سامنے
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر و قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) منصوبے کی لاگت پر سوال اٹھا دیے۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر و سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے اپنی ٹوئٹ میں کہا ہے کہ تاحال نامکمل پشاور میٹرو کی لاگت تقریباً لاہور، اسلام آباد راولپنڈی اور ملتان بی آر ٹیز کی مجموعی لاگت کے برابر ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 27 کلو میٹر پر محیط لاہور بی آر ٹی پر 29.65 ارب روپے لاگت آئی جبکہ نامکمل 27.6 کلو میٹر طویل پشار بی آر ٹی منصوبہ 90 ارب روپے سے زائد کا ہے اور کرپشن انکوائری سے بچنے کے لیے پی ٹی آئی کے عدالتوں سے حکم امتناع لینے پر حیرانی نہیں ہے۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن )کے بی آر ٹی منصوبوں کو ’جنگلا‘ بس کہہ کر مذاق اڑایا گیا، تینوں بی آر ٹی منصوبوں سے متعلق کرپشن کے بے بنیاد اور جھوٹے الزامات بھی لگائے گئے جبکہ یہ منصوبے ریکارڈ مدت میں مکمل کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ ان منصوبوں سے شہریوں بالخصوص خواتین اور مزدوروں کو محفوظ سفری سہولیات میسر آئیں۔
شہباز شریف کے ٹویٹس پر جہاں ٹویٹر پر ملا جلا ردعمل دیکھا گیا ہے وہاں بی آر ٹی کا سنگ بنیاد رکھنے والے اور موجودہ وزیردفاع پرویز خٹک نے بھی جواب دیا ہے اور ان کے دعوے کو جھوٹا قرار دیا ہے۔
پرویز خٹک نے اپنے ٹویٹ میں کہا ہے منصوبے کا مین کوریڈور مکمل کیا جا چکا ہے اور صرف آئی ٹی کا کام باقی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پشاور بی آر ٹی کی کل لاگت 90 ارب نہیں بلکہ 66 ارب ہے اوراس کے مین کوریڈور کی لاگت اب بھی لاہور میٹرو سے کم ہے۔
خیبرپختوںخوا کے سابقہ وزیراعلیٰ نے مزید بتایا کہ بی آر ٹی میں پچاس کلومیٹر کے فیڈر روٹس بھی ہیں جس میں بس سٹاپس کی اپ گریڈیشن، نکاس آب کا نظام اور سڑکوں اور بیوٹیفیکشن بھی اس منصوبے کے لاگت میں شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ اس میں زمین کا حصول، کمرشل پارکنگ پلازے بھی شامل ہیں جس کی کل لاگت 13 ارب روپے ہیں۔
پرویز خٹک نے پشاور میٹرو بسوں کو بھی لاہور میٹرو سے بہتر قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ بسیں چین سے درآمد کی گئی ہیں جو کہ کرایہ پر حاصل کی گئی لاہور میٹرو سے تین گنا زیادہ ہیں اور بی آر ٹی بسوں میں لاہور میٹرو کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ مسافروں کی بیٹھنے کی گنجائش ہے۔
خیال رہے کہ اکتوبر 2017 میں شروع ہونے والے پشاور میٹرو منصوبے کو کے پی کے حکومت نے 6 ماہ کے اندر مکمل کرنے کا دعویٰ کیا تھا جبکہ منصوبے پر لاگت کا تخمینہ 49 ارب روپے لگایا گیا جو اب 60 ارب روپے سے بھی تجاوز کرچکا ہے۔
5 دسمبر 2019 کو پشاور ہائیکورٹ نے تفصیلی فیصلہ جاری کیا تھا جس میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو 45 روز کے اندر پشاور بی آر ٹی انکوائری مکمل کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
خیبرپختونخوا حکومت نے ہائیکورٹ کے حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا جہاں 3 فروری کو سماعت کے بعد عدالت عظمیٰ نے ایف آئی اے کو تحقیقات سے روک دیا ہے۔